Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے لئے بڑھتے خطرات

ملک اطراف سے مسائل کا شکار ہے ، غیر ایک طرف ہماری قربانیوں کے اعتراف کرتے ہیں دوسری طرف شکایات کے انبار بھی لگا دیتے ہیں
* * * * * صلاح الدین حیدر * * * * *
میں مذاق نہیں کررہا۔ حالات ہی کچھ اس طرح ہوتے جارہے ہیں، جہاں حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں مگر یہاں تو ایک بے حسی کا عالم ہے، قوم بے چین ہے، لوگ پریشان حال ہیں، لیکن حکمران طبقہ چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہے۔ پرانی مثل کہ ’’نیرو بانسری بجارہا تھا اور روم جل رہا تھا‘‘ پاکستانی معاشرے پر پوری طرح صادق نظر آتی ہے۔
لاہور صرف چند روز پہلے خون میں نہا گیا اور ملک کے وزیراعظم مالدیپ جیسے ملک کے جشن آزادی میں شریک ہونے باہر تشریف لے گئے توپھر جو لوگ اُن پر تنقید کرتے ہیں، وہی صحیح ہوئے نا۔ کہاں ملک میں لاشے اُٹھائے جارہے ہوں اور کہاں جشن آزادی…مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ ایک طرف تو اندرونی بدامنی پھر سے عروج پر نظر آتی ہے تو دوسری جانب پاکستان چاروں اطراف سے مسائل کا شکار دِکھائی دیتا ہے، لیکن ہماری وزارت خارجہ ہے کہ بس سکون و آرام کی نیند سورہی ہے۔ دُنیا کس طرف جارہی ہے، ہمارے خلاف سازشوں کے کون سے تانے بانے بُنے جارہے ہیں، اس سے تو سب ہی باخبر ہیں۔
لوگوں میں ہیجانی اور عدم اعتماد کی بڑھتی کیفیات صاف نظر آرہی ہیں، لیکن وزیراعظم کو غیر ملکی دوروں کی پڑی ہے۔ کچھ لوگ تو مذاقاً ہی سہی، یہ تک کہتے سنے گئے کہ نواز شریف پانامہ لیکس کے فیصلے سے پہلے جتنے ہوسکے گارڈ آف آنرز لے لیں۔ یہی اُن کی منشا اور مرضی لگتی ہے۔ صحیح ہے یا غلط میں فیصلہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان عرصۂ دراز سے چپقلشوں میں اُلجھے ہوئے ہیں، نہ جانے کتنی میٹنگز ہوئیں، اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے، دونوں ممالک نے امن و سلامتی کا اعادہ بھی کیا، لیکن ابھی ان اعلانات کے الفاظ پر گرد بھی نہیں پڑی تھی کہ حالات و واقعات تنگ آمد بجنگ آمد کی طرف پھر سے مائل ہونے لگ جاتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے لے کر وزیر دفاع خواجہ آصف اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ تک نے افغانستان کی گتھی سلجھانے کی کوشش کی، امریکہ سے بھی بات چیت ہوئی، واشنگٹن اور امریکی فوج کے جنرل نیلسن بھی افغانستان تشریف لائے، پاکستان میں آکر آرمی چیف سے میٹنگ بھی کی، سیر حاصل گفتگو ہوئی، اخباری اطلاعات کے مطابق جنرل باجوہ نے پاکستانی تحفظات سے امریکہ کے ہم منصب کو کھلے لفظوں میں آگاہ بھی کیا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ پاکستان کے ایک سابق سفیر منیر کمال نے حال ہی میں ایک مضمون لکھا، جس میں بہت صاف گوئی سے کہہ دیا کہ امریکہ ہنداور افغانستان سے مل کر خطے میں بدامنی کی تیاری کررہا ہے۔ واقعات پر نظر دوڑائیں تو دال میں کالا تو نظر آتا ہے، لیکن میرے پاس حقائق کی کمی ہے اسلئے قیاس آرائیوں پر ہی انحصار کرنا بہتر ہوگا۔ ہندکے وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا، دونوں میں باہمی رابطوں اور رشتوں کو مضبوط کرنے کی بات کی گئی۔ دوسری طرف امریکہ نے ہندکو 22 ڈرون طیارے کئی بلین ڈالرز کے عوض دینے کا معاہدہ کرلیا۔
امریکی وزیر دفاع نے(جنہوں نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا) صاف طور پر اعلان کردیا کہ امریکہ افغانستان کی حفاظت کیلئے مزید فوجی نہ صرف بھیجے گا بلکہ افواج کی تعداد میں اضافہ اور اُسے مستقلاً رکھنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ یہ تمام باتیں، پاکستان کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث نہ صرف ہوسکتی ہیں، بلکہ بن کر رہیں گی۔ امریکہ کو اب بھی شکایت ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کو پوری طرح تباہ کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ دوسری ہی سانس میں ہر بیرونی نمائندہ یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ پاک افواج نے ملک میں امن قائم کرنے کی کوشش میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں…تو پھر یہ دو رُخی کیسی۔
ایک طرف ہماری قربانیوں کا اعتراف، دوسری طرف شکایات کا انبار۔ ہم نے لاکھ بار کہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں رہ کر کام کرتا ہے، اشرف غنی کی حکومت صرف اُنکے محل تک محدود ہے۔ امریکی فوجی بھی محل کی حفاظت تک ہی محدود ہیں۔ ملک کے شمالی علاقہ جات طالبان اورداعش سے بھرے پڑے ہیں۔ یہی لوگ افغانستان سے سرحدیں عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث نظر آتے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ سویلین حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوتی، وفاقی نہ صوبائی سطح پر۔
سندھ میں رینجرز آپریشن کررہی لیکن پنجاب میں یہ صرف برائے نام ہے۔ بلوچستان میں ویسے ہی صورتحال بہت بُری ہے۔ لوگوںکو ٹی وی پر ہتھیار ڈالتے ہوئے اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھ کر، کس کو بے وقوف بنایا جارہا ہے، اس طرح تو غیور بلوچ عوام کی غیرت کو للکارا جارہا ہے۔ اُن کی عزت کرنی چاہیے، جس کا مکمل فقدان ہے۔بدامنی نے ملک کو زخم خوردہ کردیا ہے۔ افواجِ پاکستان اپنی بساط سے بڑھ کر کام کررہی ہیں، سویلین حکومت خود کو منتخب کہلانے میں فخر تو محسوس کرتی ہے لیکن کام کرنے میں کوتاہی دیمک کی طرح اندر سے ملک کو کھا رہی ہے، لیکن فکر کسے ہے۔ یہی تو رونا ہے۔ کاش کسی کے کان پر جوں رینگ جاتی اور ہم ہوش میں آجاتے۔
ہند، اسرائیل اور امریکہ تعاون کا کوئی تو توڑ ہوگا۔ میری نظر میں تو موجود ہے لیکن حکمراں طبقہ نہ جانے کیوں اس طرف توجہ نہیں دیتا، چین اور روس بھی ایک نئی قوت بن کر اُبھر رہے ہیںبلکہ اچھی خاصی طاقت بن چکے ہیں۔ ہنداور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی عروج پر ہے، چین نے صرف اتنا ہی کہہ دیا ہے کہ ہندحرکتوں سے باز آجائے، تو اسلام آباد میں براجمان (ن) لیگ کی حکومت کیوں روس سے تعلقات کو اہمیت دیتی ہے۔ چین اور روس نے پاکستان کیخلاف ہندکی ریشہ دوانیوں کو سختی سے روک دیا۔ روس کا کردار بہت اہم ہوتا جارہا ہے، لیکن وزیراعظم بجائے ماسکو جانے کے آذربائیجان اور مالدیپ کے دوروں کو فوقیت دیتے ہیںجس سے کچھ نہیں بنے گا، ملک کو کوئی فائدہ نہیں۔
مالدیپ محض ایک تفریحی مقام ہے، وہاں جانے کے بجائے کاش وہ بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرتے، اُس کے لئے چین، امریکہ ، جاپان، کوریا، سنگاپور، برطانیہ، جرمنی، فرانس کے دورے ضروری ہیں۔ اقوام متحدہ میں اپنے مستقل نمائندے کو مزید ہدایت دیں کہ کچھ کارنامے دِکھائے لیکن نواز شریف تو ہندپر تنقید کرتے ہیں، کشمیر میں ہونے والے واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں، کنٹرول لائن پر روز روز کی گولہ باری پر بھی بیانات دیتے ہیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ آج تک اُن کے منہ سے مودی کی حرکتوں کا کوئی ذکر نہیںکیا گیا۔ دونوں کی ذاتی دوستی تو ہوسکتی ہے۔ بہت سارے بین الاقوامی سربراہوں کی ذاتی دوستی ہوتی ہے، کوئی نئی بات نہیں، لیکن ملک کو اولیت دینا سب سے اہم ہے۔ ذاتی دوستی سے ملک کی ساکھ پر اثر پڑے تو یہ کسی کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ پاکستان ہندکے درمیان 2جنگیں ہوئیں، 1965 اور 1971 میں، لیکن دونوں ہی بار افغانستان کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ اس بار حالات کچھ اور ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاک ہند میں جنگ ہوئی تو افغانستان سے ملی ہوئی 2600 کلومیٹر کی سرحد غیر محفوظ ہونے کا خدشہ ایک نیا گل کھلا سکتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں میں دُنیا کے حالات بہت بدل چکے ہیں۔ ہمیں اُس پر نظر رکھنی لازمی ہے، لیکن کیا ہم واقعی اس فرضِ اوّلین کو نبھانے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ یہی تو سب سے بڑا سوال ہے۔

شیئر: