روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہا۔
جمعرات کو سربراہی اجلاس کے موقع پر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے بعد صدر پوتن نے ایک مختصر ویڈیو بیان میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ لڑائی کو روکنے کے لیے کافی پُرجوش اور مخلصانہ کوششیں کر رہی ہے اور ایسے معاہدوں تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہے جو تمام فریقین کے مفاد میں ہوں۔‘
مزید پڑھیں
-
روسی صدر ولادیمیر پوتن سے جلد ملاقات ہو سکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپNode ID: 893103
روسی صدر کا یہ بیان جمعے کو الاسکا میں اپنے ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس میں روس یوکرین جنگ کو بند کے حوالے سے مذاکرات ہوں گے۔
ولادیمیر پوتن نے یہ بھی کہا کہ ’ہمارے ممالک اور یورپ اور پوری دنیا کے درمیان امن کی طویل مدتی شرائط امریکہ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے کے تحت طے پا سکتی ہیں۔
واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ 25 فیصد امکان ہے کہ سربراہی اجلاس ناکام ہو جائے گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اجلاس کامیاب ہو جاتا ہے، تو وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو تین طرفہ ملاقات کے لیے الاسکا لا سکتے ہیں۔
فاکس نیوز کے ساتھ ایک ریڈیو انٹرویو میں امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ الاسکا میں زیادہ دیر رہنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں لیکن اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ولادیمیر پوتن کے ساتھ کیا بات ہوتی ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور دیگر یورپی رہنماؤں نے یہ یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے کہ جب صدر ٹرمپ اور پوتن الاسکا کے سب سے بڑے شہر انکوریج میں ملاقات کریں تو ان کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس صدر کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ یوکرین جنگ بند کرنے پر رضامند نہ ہوئے تو اس کے ’انتہائی سنگین نتائج‘ برآمد ہوں گے۔‘
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے روس کے حوالے سے جن سنگین نتائج کا ذکر کیا، ان کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان یوکرینی رہنماؤں سے ورچوئل ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی شامل تھے۔
انہوں نے گروپ کو بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن قیام امن کے لیے ہونے والی کوششوں میں ’دھوکہ دہی‘ سے کام لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (پوتن) الاسکا میں ہونے والے اجلاس سے قبل یوکرین کے تمام محاذوں پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور روس یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ پورے یوکرین پر قبضہ کر سکتا ہے۔‘
خیال رہے کہ روس نے 22 فروری 2023 کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس پر وہ اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے، اس جنگ میں یورپی یونین اور امریکہ یوکرین کا ساتھ دے رہے ہیں اور روس پر پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں تاہم جنگ ابھی تک جاری ہے۔
کچھ ماہ قبل مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اور صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے روس پر دباؤ ڈالنا شروع کیا تھا۔