آج ہندوستان میں عدم تشدد کو قدم قدم پر پامال کیاجارہا ہے ،ہر طرف تشدد اور ظلم کا دور دورہ ہے، ملک میں مذہبی جنون عروج پر ہے
* * * * *معصوم مرادآبادی* * * * *
ہندوستان کے چودہویں صدرجمہوریہ کے طورپر رام ناتھ کووند نے عہدہ سنبھال لیا ہے۔ وہ قصرصدارت (راشٹرپتی بھون) میں داخل ہونے والے بی جے پی کے پہلے صدر ہیں اور خیال کیاجاتا ہے کہ وہ پارٹی کے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل کا مؤثر وسیلہ بنیں گے۔ ان کی موجودگی میں راشٹرپتی بھون کے خدوخال کیا ہوں گے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ کووند کے حلف لیتے ہی وہاں’ ’جے شری رام، وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔
اس موقع پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کا ہر لیڈر راشٹرپتی بھون میں موجود تھا۔ اس سے ایک روز قبل رخصت پذیر صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی نے اپنی الوداعی تقریر میں ہندوستانی معاشرے کو درپیش چیلنجز کی طرف ملک وقوم کی توجہ مرکوز کی ہے۔ انہوں نے سب سے زیادہ زور اس تشدد کے خاتمہ پر دیا ہے جو ہمارے معاشرے میں کمزوروں اور اقلیتوں کے خلاف فروغ پارہا ہے۔ ملک میں گئو رکشا کے نام پر جاری قتل وغارتگری سے آج ملک کا ہر بہی خواہ پریشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرنب مکھرجی نے الوداعی تقریر میں رواداری کو ہندوستانی تہذیب کی بنیاد قرار دیتے ہوئے معاشرے کو جسمانی اور زبانی ہرطرح کے تشدد سے آزاد کرانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مکھرجی نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہاکہ ذمہ دار معاشرے کی تعمیر کیلئے رواداری اور عدم تشدد کی طاقت کے احیاء کی ضرورت ہے۔ انہوں نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم روزانہ اپنے اردگرد تشدد کو اضافہ پذیر دیکھ رہے ہیں۔ اس تشدد کی جڑیں جہالت ، خوف اور بداعتمادی میں پیوست ہیں ۔ سابق صدر نے یہ بھی کہاکہ تمام قسم کے تشدد سے آزاد معاشرے میں ہی کسی جمہوری عمل میں تمام طبقوں خاص طورپر پسماندہ اور غریب لوگوں کی شرکت یقینی بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں ایک ہمدرد اور ذمہ دار معاشرے کی تعمیر کیلئے عدم تشدد کی طاقت کا احیا کرنا ہوگا۔ ثقافت ، عقیدہ اور زبان کے تنوع کو ہندوستان کا خاصّہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمیں رواداری سے طاقت حاصل ہوتی ہے اور یہ صدیوں سے ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ ہے۔ مکھرجی نے کہاکہ ہندوستان کی روح تکثیریت اور رواداری میں بستی ہے۔ ہندوستان صرف ایک جغرافیائی اقتدار نہیں بلکہ اس میں نظریات، فلسفہ ، دانش مندی ، صنعتی صلاحیت، دستکاری، اختراع اور تجربے کی تاریخ موجود ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ بابائے قوم گاندھی ہندوستان کو ایک ایسے شمولیاتی ملک کی شکل میں دیکھتے تھے، جہاں سماج کا ہر طبقہ یکساں حقوق کے ساتھ رہتا ہو اور اسے یکساں مواقع حاصل ہوں۔ پرنب مکھرجی کے الوداعی خطاب کو یہاں ذرا تفصیل سے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خطاب میں ملک کو درپیش سب سے سنگین چیلنج پر بہت کھل کر گفتگوکی ہے اور رواداری وتحمل کی ہندوستانی اقدار کا ذکر کرتے ہوئے حکمرانِ وقت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر کے بعض حصوں کا عکس اگلے روز نئے صدر جمہوریہ کی تقریر میں بھی نظرآیا۔
مکھرجی نے بابائے قوم گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے ہندوستان کی اصل طاقت اس لئے قرار دیا ہے کہ یہی وہ فلسفہ ہے جس کی بنیاد پر ہندوستان نے انگریز سامراج سے جنگ لڑکر آزادی حاصل کی تھی لیکن آج ہندوستان میں عدم تشدد کے اس فلسفے کو قدم قدم پر پامال کیاجارہا ہے اور ملک میں ہر طرف تشدد اور ظلم کا دور دورہ ہے۔ ملک میں مذہبی جنون عروج پر ہے اور اکثریتی فرقے کا ایک طبقہ اقتدار کے نشے میں چور ہوکر یہاں کی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ملک میں ہرروز گئو رکشا کے نام پر وحشیانہ تشدد ، درندگی اور بربریت کے ایسے سنگین واقعات رونما ہورہے ہیں جن سے پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ داغ دار ہورہی ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس وحشیانہ، بربریت اور درندگی کو حکومت کی شہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرموں کیخلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کی بجائے لیپا پوتی کی جارہی ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہی کثرت میں وحدت کاعلم بردار رہا ہے اور یہاں تمام فرقوں اور سماج کے تمام طبقوں نے اپنی اجتماعی طاقت کے بل پر ہی ملک کو ترقی اور کامرانی کی معراج تک پہنچایا ہے۔ ہندوستان کی بوقلمونی یہاں کی سب سے بڑی طاقت ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے مرکز میں بی جے پی برسراقتدار آئی ہے اور صوبائی سطح پر اس کے اقتدار کی جائز وناجائز توسیع ہوئی ہے، تب سے ایک مذہب، ایک کلچرا ور ایک زبان کی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پورے ملک کو ہندتو کے سمندر میں غرق کرنے کے منصوبے تیار کرلئے گئے ہیں۔ ہندوراشٹر کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے اقلیتوں کے مذہب، کلچر اور زبان کو ختم کرکے انہیں ہندتو کے آگے سرنگوں کرنے پر مجبورکیاجارہاہے۔ ملک کے تعلیمی اور ثقافتی نظام کو بھگوارنگ میں رنگنے کی تیاری پوری ہوچکی ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ایک سیکولر جمہوری آئین کی موجودگی میں ملک کے اندر فسطائی ایجنڈہ نافذ کرنے کی کوششیں پوری بے شرمی کے ساتھ انجام دی جارہی ہیں اور ہر سطح پر جمہوریت کی جگہ فاشزم کو فروغ دیاجارہا ہے۔ مخالف آوازوں کو دبانے اور کچلنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ غرض یہ کہ پورے ملک کا روشن کردار مسخ کرکے اسے اندھیرے میں پہنچایاجارہا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے پرنب مکھرجی جیسے دور اندیش قائدین کا فکرمند ہونا لازمی ہے اور ان کی تقریر میں اسی کا بھرپور عکس نظرآتاہے۔ کاش حاکمانِ وقت اس سے کوئی سبق حاصل کریں۔