Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکالمات“ جاوید یزدانی کا ادبی کارنامہ”

 
کتاب میں مصنف نے 21اہل قلم کی گفتگو جمع کی ہے
عارف عزیز۔بھوپال
انٹرویو نگاری، مکتوب نگاری کی طرح آج ایک باقاعدہ فن بن چکی ہے۔ مغربی ادب میں اِس فن کو بہت پہلے عروج حاصل ہوگیاتھا لیکن20ویں صدی کے دوران اردو میں بھی ایسے متعدد انٹرویو نگار سامنے آئے جنہوں نے اِس فن میں اپنی شناخت قائم کی اور برصغیر کی سطح پر اُن کو مقام و مرتبہ بھی حاصل ہوا۔
ایک معاصرکا کہناہے کہ انٹرویو کو عرفِ عام میں اخباری ملاقات کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگوںکی رائے جاننے، ان کی تربیت کرنے اور معلومات حاصل کرنے کا ایک مو¿ثر ذریعہ ہے۔ انٹرویو کی یہ صنف ایک ایسا آئینہ ہے جس کے ذریعہ کسی خاص شخصیت کے افکار و خیالات کی تہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے پھیلاو¿ کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرویوآج کسی بھی خبر کی تہ تک پہنچنے کا سب سے طاقتور وسیلہ بن گیا ہے۔ 
ہمارا رات دن کا مشاہدہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا اُس کی مختلف خبروں اور وارداتوں کی رپورٹنگ کے ساتھ کسی ماہر کا انٹرویو شامل کر دیا جاتا ہے جس سے بات واضح اور مستند طریقے سے سامنے آجاتی ہے۔ انگریزی و ہندی اخبارات میں تو اس کا چلن تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اردو اخبارات میں ابتک انٹرویو، خبر پر حاوی نہیں ہوا ، پھر بھی اس کا رواج ماضی کے مقابلے میں کافی بڑھ گیا ہے۔ اردو رسائل میں اکثر و بیشتر کسی ادیب، شاعر، صحافی یا دانشور کے انٹرویو پڑھنے کو مل جاتے ہیںجس سے اس کی شخصیت، خدمات اور فن کے تئیں خود سپردگی کی مختلف جہتیں سامنے آجاتی ہیں۔ اردو اخبارات و رسائل میں حکومت کے ذمہ دار، سیاسی و سماجی رہنما، ڈاکٹر، تاجر، فنکار اور اداکاروں کی زندگی کے نشیب و فراز سے قارئین کو آگاہ کرانے کے لئے انٹرویو لینے کی روایت پرانی ہے۔ 
ایک دور میںدہلی کے مشہور پبلشنگ ادارے کے ماہنامے کے لئے معروف صحافی سلامت علی مہدی کسی قومی، بین الاقوامی اور علاقائی لیڈر سے ہر ماہ انٹرویو لیتے تھے جو بڑے اہتمام سے اس رسالے کی زینت بنتا تھا ۔ قارئین بھی اُس کا نہایت شوق سے مطالعہ کرتے تھے۔سلامت علی مہدی نے مصر کے صدر جمال عبدالناصر،ہند کی آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی، شیخ عبداللہ اور دیگر قومی و عالمی شخصیتوں سے انٹرویو لیکر دھوم مچا دی تھی۔ اِن میں سے بعض انٹرویو اتنے تفصیلی ہوتے تھے کہ کئی قسطوں میں شائع کئے جاتے اور لوگوں کو تجسس رہتا کہ آئندہ کس اہم شخصیت کی گفتگو انہیں پڑھنے کو ملے گی۔ 
سلامت علی مہدی کے بعد پاکستان کے ممتاز صحافی محمود شام نے کراچی کے ایک اُردو روزنامے کے لئے اہم سیاست دانوں کے انٹرویو لئے جواخبار کے مختلف ایڈیشنوں میں ہی شائع نہیں ہوئے بلکہ ہندوستان کے اخبارات و رسائل میں بھی نقل ہوتے رہے۔ محمود شام نے ہندوستان آکر یہاں کے چوٹی کے لیڈروں کے انٹرویو بھی لئے۔ قومی اردو کونسل کا ترجمان ماہنامے ”اردو دنیا“ میں بھی ایک عرصے سے ہر ماہ کسی ایک ادبی شخصیت سے اس کے قلمی کاموں کے بارے میں انٹرویو کی اشاعت ہورہی ہے۔ اردوکے نیوز چینل نے خصوصی پروگرام کے لئے مقامی میڈیا کے گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے مدعو مہمانوں سے بات چیت کا آغاز کیا تھا۔
بھوپال میں مکتبہ عابدیہ کے ڈائریکٹر خالد عابدی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لئے ادبی شخصیتوں سے کئی انٹرویو کئے۔ ان کے مراسلاتی انٹرویوز پر مشتمل ایک کتاب”ادبی انٹرویوز“ کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے۔ ریڈیو انٹرویوز پر بھی 3مزید کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ بھوپال کے ایک اورصحافی انعام اللہ لودھی نے نیشنل اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں سے کافی انٹرویو لئے جومختلف اخبارات و رسائل میںشائع ہوئے اور پاکستان کے اخبارات و جرائد میں بھی نقل ہوئے۔ اسی طرح اشفاق مشہدی ندوی کے انٹرویو ایک ہفت روزہ میں اور راقم کے مختلف شخصیات سے لئے گئے انٹرویوز بھی مختلف جرائد کی زینت بنتے رہے۔ ایک اور طویل انٹرویو ناقد و ادیب ڈاکٹر اخلاق اثر نے20 ویں صدی کی مشہور شخصیت مولانا محمد عمران خاں ندوی کے حالات زندگی، کارنامے اور تاج المساجد کی تعمیر پر مشتمل گرانقدر معلومات حاصل کرنے کے لئے ان سے لیا تھاجس کے مطالعے سے مولانا کی شخصیت، ملی خدمات اور قربانیوں سے واقفیت ہوتی ہے۔ 
اب ایک اور نام بھوپال کے ہی ممتاز اردو صحافی جاوید یزدانی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جو کافی عرصے سے ایک سہ ماہی اورایک اردو ماہنامہ نکال رہے ہیں۔حال ہی میں ان کی نئی کتاب” مشاہیر ادب کے انٹرویو“ شائع ہوئی ہے جو بقول کوثر صدیقی، بھوپال کے مکالماتی ادب میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔“ اِس میں انہوں نے 21اہل قلم کی گفتگو جمع کی ہے جو انہوں نے بھوپال کے ماہنامے کے لئے کی تھی اور ہر ماہ اس رسالے میں شائع ہوتی تھی۔ مشاہیر ادب کے انٹرویو کے اس مجموعے کا نام جاوید یزدانی نے ”مکالمات“ رکھا ہے جس کے بارے میں وہ خود ”اپنی بات“ کے عنوان سے رقم طراز ہیں۔
ہندی ماہنامے کے لئے میں سیاسی شخصیات کے انٹرویو لیکر شائع کرتا تھا، وہی سلسلہ میں نے اردو “ رسالے میں بھی شروع کیا۔ قارئین نے یہ انٹرویو بہت پسند کئے چنانچہ جب یہ قابلِ ذکر تعداد میں ہوگئے تو میںانہیں کتابی شکل میں شائع کرنے کا خواب دیکھنے لگا۔ اس خواب کی تعبیر ”مکالمات“ کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ شخصیات کے کارناموں کو سمجھنے کے لئے ان کی ذاتی زندگی کے حالات اور ان کے عہد کے ماحول کی واقفیت ضروری ہوتی ہے جو عموماً ان کی تخلیقات میں نہیں ملتی۔ میں نے ان انٹرویوز کو بطور خاص پیش کرکے مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔
”مکالمات“ کے مقدمے میں کوثر صدیقی بھی کتاب کی خوبیوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”زیر نظر کتاب میں 21انٹرویو شامل ہیں جن میں چندربھان خیال، شمیم طارق اور سیفی سرونجی کو چھوڑ کر باقی تمام انٹرویو بھوپال کے تخلیق کاروں کے ہیں۔ یہ سب انٹرویو2015ءاور2016ءمیں لئے گئے ہیں۔ شخصیات کے انتخاب میں بہت سلیقے سے کام لیا گیا ہے۔ سبھی شخصیات ایسی ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر بھوپال کی ادبی تاریخ ادھوری ہی کہی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ ان کے سوالات میں پختگی اور افادیت ہے۔ ہر مسﺅل سے انہوں نے ضروری سوالات کے جواب حاصل کرکے اس کے بارے میں اتنی بنیادی باتیں شامل کر دی ہیں کہ جو قاری کی تشفی کا باعث بنتی ہیںنیز ان شخصیات پر کام کرنے والے لوگوں کو بنیادی معلومات کا باعث ہوں گی۔“
حقیقت یہ ہے کہ 210 صفحات کی کتاب ”مکالمات“ کا مطالعہ کئے بغیر اِس کی افادیت و اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ بعض انٹرویو نہایت قیمتی معلومات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلا انٹرویو پروفیسر آفاق احمد کی شخصیت سے ہمیں متعارف کراتا ہے اور ان کی زندگی، ابتدائی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں معلومات ہی حاصل نہیں ہوتی، اس عہد کی اہم شخصیات خاص طور پر اساتذہ کرام، ادبی سرگرمیاں، تعلیمی ماحول، انجمن ترقی اردو مدھیہ پردیش کے مقاصد، قیام اور پھیلاو¿، اس عہد کی افسانہ نگاری نیز ان افسانہ نگاروں کا مختصراً تعارف بھی ہوجاتا ہے جنہوں نے اس صنف میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ اس انٹرویو کی انفرادیت وہ چبھتے سوالات بھی ہیں جو شاید اس سے پہلے کسی نے محترم آفاق سے نہ کئے ہوں گے اور ان کے برجستہ جواب بھی ملے ہیں،بعض غلط فہمیوں کا پردہ چاک ہونے میں بھی ان سے مدد ملے گی۔
پروفیسر آفاق حسین صدیقی اور ڈاکٹر اخلاق اثر کے انٹرویو بہت کچھ کہنے اور دونوں شخصیتوں کے بارے میں نئے پہلو سامنے لانے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں جبکہ اقبال مجید اور پروفیسر خالد محمود کے انٹرویو پڑھ کر ہم مزید معلومات سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ اقبال مجید فکشن کی دنیا کا بڑا نام ہےں تاہم اُن سے کئے گئے سوالات خود اُن کے فن کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے، پھر بھی یہ اہم ہے کہ اس انٹرویو کے ذریعہ ہم اُن کے مقام و مرتبے سے واقف ہوجاتے ہیں اور ان کے لئے جوابات سے زیادہ سوالات ذریعہ بنے ہیں۔
پروفیسر خالد محمود کے انٹرویو میں اُن کی شخصیت اور ادبی کاموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جاوید یزدانی نے اپنے سوالات کے وسیلے سے خالد محمود کی شاعری، طنز و مزاح نگاری، انشائیہ نگاری، ترجمہ نگاری، خاکہ نگاری، تحقیق و تنقید بالخصوص سفر ناموں پر تحقیقی کام پر مفید معلومات اس انٹرویو میں جمع کر دی ہے۔ رشید انجم کا انٹرویو بھی ان کی قلمی زندگی اور اس کے مختلف پڑاو¿ سے ہمیں واقف کراتا ہے۔ پدم شری پروفیسر حکیم ظل الرحمن کی شخصیت و کارناموں سے نئی نسل کو واقف ہونا چاہئے۔ ان سے لیا گیا انٹرویو اس مقصد میں معاون بنتا ہے جبکہ ڈاکٹر سیفی سرونجی، پروفیسر مختار شمیم، پروفیسر محمد نعمان خاں سے جاوید یزدانی کے سوالات اور تینوں شخصیتوں کے جوابات کے بعد سے اُن زندگی اور ادبی کاموں کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔شمیم طارق، کوثر صدیقی، ڈاکٹر نصرت مہدی اور نعیم کوثر کے انٹرویو بھی ان کے قلمی کارناموں اور شخصی خوبیوں سے کسی حد تک متعارف کراتے ہیں۔
یوں تو کتاب کا کوئی انٹرویو سرسری طور پر لیا گیا محسوس نہیںہوتا پھر بھی پروفیسر مختار شمیم، خالد عابدی، نثار راہی، محترمہ رضیہ حامد، ڈاکٹر شاہد میر اور ڈاکٹر سیفی سرونجی کے انٹرویو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ سوائے پروفیسر آفاق احمد، جن 20 شخصیتوں سے جاوید یزدانی نے گفتگو کی اور اس کو سیاہ و سفید کے درمیان محفوظ کر دیا، خدا کا شکر ہے کہ وہ سبھی بقیدِحیات ہیں۔
”مکالمات“ میں راقم کا بھی ایک انٹرویو شامل ہے جس کے بارے میں، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اس سے میری معلومات میں کوئی اضافہ ہوا لیکن اسے پڑھ کر مجھے یہ ضرور اندازہ ہوا کہ جاوید یزدانی گہری نظر کے مالک ہیں۔ انہوں نے بعض ایسے سوالات کے ذریعہ میری زندگی کو کریدنے کی کوشش کی جن کو میں غیر اہم سمجھ کر فراموش کر چکا تھا لیکن آج ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ جاوید یزدانی ”مکالمات“ کو ہندی کا قالب پہنا کر شائع کر دیں تو ہندی داں حلقوں میں اردو کے قلم کاروں کے تعارف کا یہ وسیلہ بنے گی اور اِس کی افادیت دو چند ہوجائے گی۔
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: