Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئندگانِ پاکستان

* * *شہزاد اعظم** *
شکر ہے ،وقت گزر گیا، جو بود تھا وہ نابود ہوگیا۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ بس اپنے انجام کو پہنچ چکا مگر پھر مہلت ملی تو جان میں جان آئی۔ اب وہ آج نہیں رہا بلکہ کل ہو چکا ہے۔ گو میں نے وہاں صرف3گھنٹے،40منٹ ہی گزارے مگریہ 220منٹ میرے لئے سوا 2صدیوں سے کم نہیں تھے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، بس دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ کاش ایک موقع اور مل جائے تو وہ کچھ کر گزروں جو آج تک نہیں کر سکا تھا۔وہ ’’ بزمِ اجداد‘‘ تھی اور میں اس میں بطور مہمان شریک تھا۔میرے نانانانی، دادا دادی،ان کے والدین اور ان کے ہم رکاب و ہم شباب،تا حد نظر موجود تھے۔میں ایک کرسی پر براجمان تھا۔یہ بزم کھلے آسمان تلے سجائی گئی تھی، 14ویں کا چاند تھا، چاندنی کی روپہلی روشنی چہار دانگ عالم میںچمکی ہوئی تھی۔ شرکائے بزم نے سفید پیرہن، زیب تن کر رکھے تھے۔سب کی جبینیں کسی ماہ کی مانند روشن تھیں مگر ان پر اُداسی کی پرچھائیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کبھی کبھی ہوا کا کوئی جھونکا گشت پر نکلتااورسرگوشی کرتاتومجھے یقین آتا کہ حسِ سماعت ابھی باقی ہے ۔ اس کے بعد پھر وہی شہرِ خموشاںکا سا سناٹا طاری ہوجاتا۔اَن دیکھے اجدادکے سامنے میں کوشش کے باوجود لب کشائی نہ کر سکا، ان کی ناراضی نے مجھ سے گویائی چھین لی تھی۔ اسی دوران ایک جانب کی وسعتوں سے جسیم سایہ مجھے اپنی جانب بڑھتا دکھائی دیا۔جیسے جیسے وہ قریب آ رہا تھا،اس کا وجود واضح ہوتا جا رہا تھا۔
یہ ایک 70سالہ باوقار، خوددار، خود انحصار شخص تھا جس کا بایاں بازو نہیں تھا۔ وہ اپنے پیروں پر کسی سہارے کے بغیر چلتا ہوا آیا اور میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔اس نے مجھ سے سوال کیا کہ مجھے جانتے ہو میں کون ہوں؟اس کی زبان سے یہ استفہامیہ الفاظ کیا نکلے، تمام اجداد کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے سا ل خوردہ وجود پر سبز و سفیدلباس تو تھا مگر اس میں جا بجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں سے میرے لئے شفقت و محبت مترشح ہو رہی تھی۔ اسکے چہرے پر جھریاں تو تھیں مگر تیوری پر بل کوئی نہیں تھا۔اس کے ہاتھ بتا رہے تھے کہ یہ لا کھ کمزور سہی مگر طاقتور وں کو تھامنے اور ان کی گرفت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس نے دوبارہ مجھ سے استفسار کیا کہ تم جان گئے میں کون ہوں؟ میں اپنا تعارف کرادیتا ہوں۔میں وہی ہوں جو مسلمانانِ برصغیر کو ہندوئوں اور ولایتیوں کے پنجۂ استبدار میں جکڑا ہو ا دیکھ کر خون کے آنسو روتا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ مجھے کوئی نام مل جائے، کوئی مقام مل جائے ، احترام مل جائے تاکہ میں اس خطے کے تمام مظلوم مسلمانوں کو اپنی آغوش میں لے لوں ۔ پھر یوں ہوا کہ رب کریم نے ایک شخص کو مہرباں بنا کر بھیج دیا۔
وہ محمد علی جناح تھے جنہوں نے میری دلی خواہش کی تکمیل کا بیڑا ٹھا لیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو آزادی کا راستہ دکھلایااورمسلمانانِ برصغیر کودو قومی نظریے کی تعلیم دی اور باورکرایا کہ ہندو اور مسلم 2علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں۔ مسلمان گائے ذبح کرتا ہے اور ہندو ، معاذ اللہ، اسی گائے کی پوجا کرتا ہے۔ یہ دونوںبھلا ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں۔انہوں نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا ۔پھر یوں ہوا کہ بچے، بوڑھے، خواتین ، سب ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ہو لئے ۔اس وقت سب نے یہی کہا کہ :
پاکستان کا مطلب کیا::لا الٰہ الا اللہ
پھر 14اگست 1947ء کو مجھے آزادی ملی، میں اپنوں کو ساتھ لے کر ہندوئوں اور ہندوستان سے علیحدہ ہوگیا۔ اس دوران مخالفین نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔خاندانوں کے خاندان اُجاڑ دیئے گئے مگر برصغیر کے مسلمانوں نے تن من دھن قربان کر دیا مگر میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔میں خوش تھا کہ اب کوئی ہندو میرے لوگوںکا حق سلب نہیں کر سکے گا،کسی مسلم کا استحصال نہیں کر سکے گا۔ میں معاشی طور پرشدید مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود خوش تھا کہ سب لوگ میرے اپنے ہیں،محنت کریں گے، کمائیںگے، کھائیں گے اور شاہراہِ ترقی پر قدم آگے بڑھاتے جائیں گے مگر جانتے ہو پھر کیا ہوا........؟ میرے اپنوں نے ہی میرے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے ۔میرے چاہنے والوں کو موت کی نیند سلایاجانے لگا۔ میری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے، گھر کے تنازعات کوطشت از بام کیا ۔میں اپنے لوگوں کو جس پنجۂ استبداد سے بچا کر لایا تھا، انہوں نے اسی سے ہاتھ ملا لیا۔دونوں نے مل کر میرا ایک بازو کاٹ ڈالا۔میں بہت رویا،چیخا چلایا مگر کسی نے میرے دکھ کا احساس نہیں کیا۔ پھر یوں ہوا کہ’’وقت‘‘ نامی مرہم نے میرا زخم بھر دیا۔ میں نے اسی حالت میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد کرنی شروع کر دی تاکہ اپنے لوگوں کو دنیا میں سر اٹھا کر جینے کے قابل بنا سکوں مگر جیسے ہی میں اپنے سہارے کھڑا ہوا، میری گود میں پروان چڑھنے والے ایک صاحبِ اختیار نے میرے وجود کو گہرازخم دے دیا۔
میں نے اس سے استفسار کیا کہ تم تو’’میں‘‘ ہو، میرے ہو، مجھ سے ہوپھر مجھے زخمی کیوں کر رہے ہو، اس نے کہا کہ آپ کو علم نہیں کہ یہ زخم کتنا قیمتی ہے ، اسے دنیا کودکھائیں گے تو ہمیں غیر ملکی کرنسی میں امداد ملے گی، جسے ہم بیٹھ کر کھائیں گے۔ آج کتنی ہی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ میری گود میںایسے کتنے ہی خود غرض موجود ہیں جو مجھے زخم لگاتے ہیں اور پھرکشکول لے کر دنیا کے آگے ہاتھ پھیلا کرفریاد کرتے ہیں کہ ہمارے اس ’’بزرگ‘‘ کی حالت دیکھئے ، بے چارہ پہلے اپنا بازو گنوا بیٹھا اور اب اس کا سارا وجود ہی زخموں سے چور ہے۔
یہ دیکھ کر عالمی برادری ان کے کشکول میں کھنکتے سکے ڈال دیتی ہے جن سے یہ’’ صاحبان‘‘ملک اور بیرونِ ملک عیش کرتے ہیںاورعوام بے چارے خوشحالی کا انتظار۔ اس باوقارہستی نے پھر مجھ سے استفسار کیا کہ مجھے اب بھی نہیں پہچانے؟ قبل اسکے کہ میں جواب دیتا، ایک کمسن وہاں نمودار ہوا، اس نے سفید قمیص ، شلوار اورسبز صدری پہن رکھی تھی، سر پر تاج نما کلاہ تھا جس پر’’کوہ نور‘‘ کی مانند پاکستانی پرچم جڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک خوبصورت شمع کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔یہ سب دیکھ کر میں ششدر رہ گیااور اس باوقار بزرگ کے سوال کے جواب میںسوال کر دیا کہ آپ ہی فرمائیے کہ آپ کون ہیں، میں کون ہوں ، یہ لوگ کون ہیں اور یہ کمسن کون ہے ؟ اس مظلوم ہستی نے جواب دیامیں پاکستان ہوں، آنسو بہاتے خموش لوگ ’’رفتگانِ پاکستان ‘‘ ہیں، تم نمائندگانِ پاکستان ہو اور یہ کمسن آئندگانِ پاکستان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوںمیں شمعِ اُمید تھام رکھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندگانِ پاکستان میرے زخموں پر مرہم رکھیں گے اور میری خدمت کریں گے پھرہم دنیا سے امداد نہیںمانگیں گے بلکہ اغیار کوقرضے دیں گے پھر اقوام عالم کے کشکول میںبھی پاکستانی سکوں کی کھنک سنائی دے گی۔یہ سن کر میرے کانوں کو کھنک سنائی دینے لگی، معلوم ہوا کہ روم میٹ چائے میں چینی گھول رہا تھا۔میں نے شکر ادا کیا کہ بزم اجداد خواب تھی مگر مبنی بر حقیقت۔

شیئر: