Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘

بہتر یہ ہے کہ جانورخود ذبح کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کیلئے کہے
* * * میاں منیر احمد ۔اسلام آباد* * *
ارشاد ربانی ہے: ’’تو تم اپنے رب کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘(الکوثر2)۔ قربانی کو واجب کرنے کی اہم حکمت یہ ہے کہ جد الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی مثالی سیرت طیبہ جو کہ ایثار وقربانی اور احکامات الٰہی کی تعمیل سے عبارت ہے، اس کی یاد تازہ کرکے آپ ؑ کی اتباع کا جذبہ بیدار کیا جائے۔ ہر مسلمان، عاقل، بالغ، آزاد، مقیم، مالک نصاب پر ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کے دن شروع ہونے پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔قربانی کیلئے یہ حکم ہے کہ جانور خوب صحت مند اور بے عیب ہو۔ لنگڑا، اپاہج، کانا اور جسکا کوئی عضو مثلاًکان وغیرہ تیسرے حصہ سے زیادہ کٹا ہوا ہو، اس کی قربانی جائز نہیں۔ قربانی10، 11، 12 ذوالحجہ تک کی جاسکتی ہے۔
نویں تاریخ کی صبح کی نماز کے بعد سے ہر نماز کے بعد تکبیراتِ تشریق: اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد تیرہویں تاریخ کی عصر کی نماز تک5 دن پڑھتے رہنا چاہئے ۔ ذوالحجہ 10ویں تاریخ کو چاشت کے وقت نماز کیلئے عید گاہ جائیں اور جاتے آتے ہوئے بآواز بلند یہی درجِ بالا تکبیر پڑھتے رہیں اور جس راستہ سے جائیں واپسی اسکے سوا دوسرے راستہ سے آنا بہتر ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ جیسے صحابہ کے شاگردوں میں حضرت عکرمہ ،حضرت قتادہ اور حضرت عطاء رضی اللہ عنہم کی روایت بیان کرتے ہیں ،وہ آیتِ مذکورکے متعلق فرماتے ہیں: ’’ تم قربانی کے روز اپنے رب کیلئے نماز عید پڑھو اور قربانیوں کے جانوروں کو ذبح کرو۔‘‘ تفسیر قرطبی اور تفسیر جلالین میں بھی اس آیت کے تحت ایسی ہی تحریر ہے جبکہ تفسیر ابی سعود اور کشاف میں ہے: ’’کہا گیا ہے کہ اس آیت میں نماز عید اور قربانی کرنا مراد ہے۔‘‘
مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے اور بتوں کے نام کی قربانی دیتے تھے۔ اس آیت مبارکہ میں نبی اکرم کی وساطت سے آپ کی امت کو توحیدِ خالص کا حکم دیا گیا کہ وہ رب العالمین جل جلالہ و عم نوالہ کے لئے عبادت کریں اور اسی کیلئے قربانی دیں ۔اس آیت مبارکہ میں اخلاص و للہیت کا حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان کے کسی عمل میں ریاء وسمعہ (دکھاوا اور شہرت حاصل کرنا) نہیں ہونا چاہئے بلکہ نیت میں یہ ہوکہ یہ کام محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے کیا جارہا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور طعنے دے کر اس شخص کی طرح ضائع نہ کرو جو اپنا مال دکھاوے کیلئے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ نبی اکرم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں اس چیز سے آگاہ نہ کروں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال کے فتنہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ‘‘
صحابہ نے عرض کیا: ہاں فرمائیے! آپ نے فرمایا: ’’ وہ شرکِ خفی ہے کہ ایک آدمی نماز کیلئے کھڑا ہو اور خوب اچھی طرح پڑھے اس لئے کہ کوئی دوسرا شخص اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ اسی طرح مسلم شریف :کتاب الامارہ میں ایک لمبی حدیث مبارک ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے روز سب سے پہلے جو فیصلہ ہوگا: ایک شخص جو بظاہر شہید ہوا ،دوسرا جس نے قرآن پڑھا اور پڑھایا اور تیسرا جس نے بظاہر فی سبیل اللہ مال خرچ کیا۔ ان تینوں کو اخلاص و للہیت نہ ہونے بلکہ دکھاوے اور شہرت پانے کیلئے یہ عظیم کارنامے انجام دینے کی وجہ سے گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دینے کا حکم ہوگا۔
العیاذ باللّٰہ! جس شہر میں نماز ِجمعہ و عید پڑھی جاتی ہے، قبل نماز کے قربانی نہ کرے۔ عید کے روز قربانی کرنے تک کچھ نہ کھائے پیئے۔ قربانی کرکے وہی گوشت کھائے، یہ مستحب ہے۔ ذبح خود کرے یا کسی دوسرے مومن کو اجازت دے کر اپنے سامنے کرائے مگر اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔ اگر کوئی کسی اور کی طرف سے قربانی کرے یا قربانی کا ثواب میت کو بخشے تو جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ کی قربانی کے متعلق صحیح مسلم، سنن ابو دائود، اور مسند امام احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور عرض کیا: ’’اے اللہ! میری طرف سے میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما۔‘‘ جبکہ جامع ترمذی و صحیح ابو دائود میں حضرت حنش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو2 قربانیاں دیتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ آپ2قربانیاں کیوں کررہے ہیں؟ تو فرمایا: رسول اللہ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں ایک قربانی آپ()کی طرف سے کیا کروں لہٰذا میں ایک قربانی آپ کی طرف سے کرتا ہوں۔‘‘ (سنن ابو داؤد:کتاب الضحایا، باب الاضحیۃ من المیت)۔
قربانی کے گوشت کے3 حصے کرے۔ایک حصہ اپنے اور اہل و عیال کیلئے رکھے، دوسرا رشتہ داروں میں، تیسرا مساکین و فقراء میں تقسیم کرے جبکہ قربانی کے گوشت یا کھال کو اجرتِ قصاب میں دینا جائز نہیں۔ ہاں کھال خود استعمال کرسکتا ہے، موزہ بنوائے یا جائے نماز وغیرہ، اگر بیچے تو قیمت خود پر خرچ نہیں کرسکتا بلکہ کسی مستحق کو دے دینا لازم ہے۔ سنن ابن ماجہ کی کتاب الاضاحی میں ہے۔حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟آپ نے فرمایا: ’’ تمہارے باپ (حضرت )ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ ہر بال کے عوض نیکی۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اون؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اون کے ہر بال کے عوض نیکی۔‘‘ جبکہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا: ’’جو شخص دل کی خوشی سے اور ثواب پانے کی نیت سے قربانی کرے تو قربانی اس شخص کیلئے آگ سے رکاوٹ بن جائیگی۔‘‘ ایک حدیث میں ہے : ’’قربانی کے جانوروں کو خوب پالو! کہ وہ پل صراط پر تمہارے لئے سواری ہوں گے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے : ’’قیامت کے روز قربانی ایک خوبصورت جانور کی شکل میں قبر پر کھڑی ہوگی اور قربانی دینے والے کو اپنے اوپر سوار کرکے عرش معلی کے سایہ تلے پہنچائے گی۔‘‘ بہتر یہ ہے کہ جانورخود ذبح کرے۔
اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کیلئے کہے اور بوقت ذبح خود موجود رہنا زیادہ بہتر ہے۔ ذبح کرنے والے کیلئے تکبیرِ ذبح ’’ بسم اللہ، اللہ اکبر‘‘ کہنا لازم ہے اور درجِ ذیل کلمات کہنا مسنون ہے: ’’اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن، اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن، اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ، بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ۔ ٭ اونٹ کیلئے 5 سال، گائے بھینس کے لئے 2سال، بکری کیلئے ایک سال کا ہونا ضروری ہے۔ اگر عمر اس سے ایک دن بھی کم ہو تو قربانی جائز نہیں ہوگی۔ بھیڑ بھی ایک سال کی ہونی چاہئے، لیکن اس میں یہ تخفیف فرما دی گئی کہ6 ماہ سے زیادہ عمر کی بھیڑ (بشرطیکہ اتنی صحتمند ہو کہ دیکھنے میں ایک سال کی محسوس ہوتی ہو) اس کی قربانی جائز ہے۔
٭ اندھے، کانے، لنگڑے، نہایت لاغر، ایک تہائی سے زیادہ کان یا دُم کٹے، جس کا سینگ جڑ سے مع گودے کے ٹوٹ گیا ہو، جو جانور گندگی کھاتا ہو اور اسکے جسم سے بدبو آتی ہو، جسکے نصف یا زیادہ دودھ والے اعضا سوکھ چکے ہوں، جسکے زیادہ دانت نہ ہوں اور ناک کٹے کی قربانی جائز نہیں۔
٭ گائے، بھینس اور اونٹ میں 7 آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ چاہے سب قربانی کرنے والے ہوں اور چاہے بعض قربانی کرنے والے اور بعض عقیقہ کرنے والے لیکن کسی ایسے شخص کو شامل نہ کیا جائے جو بد مذہب ہو ورنہ کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔

شیئر: