Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اخبارکے ایڈیٹر کی شاعر سے گفتگو

 
شہزاد اعظم۔جدہ
 ہم کو ڈاک ملی ہے ایسی شعروں کے نذرانے میں
کچھ تو ”عنایت “ میں شامل ہے، کچھ شامل ”ہرجانے“ میں
ساری ڈاک پڑھی جب ہم نے،طبع ”مُشَکَّل“ہو بیٹھی
شعر لگا پھر بحر سے باہر، نثر لگی ”پیمانے“ میں
شعر ہوئے پھر ذہن میں وارد ہم نے انہیں مرقوم کیا
ان کو پڑھا تو ایسا لگا کچھ کہہ بیٹھے انجانے میں
 بدھ کو سویرے چائے پلا کر اس نے ہمیں ٹرخا ڈالا
اس نے بلایا تھا ہم کو تو منگل کے ظہرانے میں
ہم تم روز ملا کرتے تھے، جب تھے پاگل خانے میں
جب سے باہر ہم آئے ہیں، رہتے ہیں کترانے میں
گھنٹوں میں نے رات تمہارے دروازے پر دستک دی
تم تھے زنانے میں جا بیٹھے یا کہ تھے مردانے میں
جس پر میرا نام لکھا تھا، میں تو اُسی کمرے میں تھا
”میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں“
دفتر میں اک شاعر نے یوں فون پہ استفسار کیا
آپ بتائیں وزن ہے کیا یہ مصرعِ طرح اٹھانے میں
ہم نے کہا بھاری تو نہیں، آسان اٹھانا ہے اس کو
یہ بحر ہے کیا معلوم نہیں،لگتی ہے بھلی یوں گانے میں
تاک دھنا دھن، تاک دھنا دھن، تاک دھنا دھن دھانے میں
اس مصرعے کی بحرہے یہ،کچھ آئی سمجھ سمجھانے میں
اس بحر کو یوں بھی لکھتے ہیں گر آپ سمجھنا چاہیں تو
”لڑکا تو انگلینڈ میں ہے پر لڑکی ہے لدھیانے میں“
یہ سنتے ہی فون کٹا،ہم ہیلو، ہیلو کیا کہتے
 کچھ ایسا لگا ہم مجرم ہیں،اور لائے گئے ہیں تھانے میں
 ان کی ”غزل“ موصول ہوئی،مصرع یہ گوارہ کر لیجے
”تاک دھنا دھن دیر لگا دی، تاک دھنا دھن آنے میں“
 

شیئر: