پرانے زمانے میں ایک آدمی کے ساتھ اس کا پوردھڑاشامل ہوتا تھا ،اب صرف شخصیا ت کا اثرو رسوخ باقی رہ گیا ہے
* * * *سید شکیل احمد* * * *
پاکستان ہی کیا اگر جنو بی ایشیا کے خطے میں پنپنے والی سیا ست کاجا ئزہ لیا جا ئے تو کوئی ایک دہا ئی سے یہاں پا رٹیو ں میں خاندانی سیا ست کے ہی اثرات ہیں جس کی بنیا دی وجہ لیڈر شپ میں شخصیت پر ستی کا عنصر نمایا ں رہا ہے ۔ سری لنکا ہو، بنگلہ دیش ہو یا ہند سب میں خاندانی سیا ست ہی کا شہر ہ ہے ۔ سیا سی جما عتو ں کا وجود اس کے اساس پر ہی ہے ۔ قیا م پا کستان کی تحریک نے مسلم لیگ کو سیا سی جما عت نہ بننے دیا، پاکستان کے قیا م کے بعد اس کا کردار حکومت سازی میں بھی ایک تحریک کی طر ح ہو کر رہ گیا جس نے بہت سے بحرانو ں کو جنم دیا ۔ یہ صورت کچھ اے این پی کی سی بھی ہے ۔ اے این پی جو پاکستان کے قیا م کے بعد سے مختلف نا مو ں سے دوچار ہوتی رہی مگر اس میں شامل سبھی ایک ہی سیا سی مکتبہ فکر کے افراد ہیں اور اسی مکتبہ فکر کی بنیا د پر اس جما عت میں یکسوئی پائی جاتی ہے ۔
اس کے اکا برین کا ادعا ہے کہ یہ ملک کی واحد منظم، جمہو ری اور تر قی پسند جما عت ہے ۔ جمہو ری جما عت کے دعویٰ کو ایک حد تک تسلیم کیاجا سکتا ہے مگر ترقی پسند ی کادعویٰ مشکوک ہے کیونکہ یہ جماعت شروع سے ادعا تو کسان اور غریب و مزدور کے حقوق کے تحفظ کا کرتی رہی لیکن وہ عمل پیر ا قدیم پختون ثقافت پر رہی ہے اور پختون معاشرہ مختلف طبقو ں پر مشتمل ہے ۔ اسی وجہ سے اے این پی کی سیا ست باچا خان کے خاندان کی قیادت سے باہر نہ ہو سکی ۔ سیا ست اور حکمر انی ہمیشہ باچا خان کے خاند ان کی باندی ہی رہی ماسوائے ایک مرتبہ جب اجمل خٹک کو قیا دت سونپی گئی تاہم ان کے ہا تھ اس قیادتی دور میں بندھے رہے ۔ ایک با ت اے این پی کی خوبصورتی میں چار چاند لگا ئے ہوئے ہے کہ مرکزی قیادت سے ہٹ کر باقی ہر جگہ جمہو ری اقدار موجود ہیں اور عہدے منتخب ہو تے ہیں ۔ گو اس میں بھی باچا خان کے خاندان کا اثر رسوخ کا ر گر ہوتا ہے ۔ اے این پی میں سیاست یا پار ٹی کے مقاصد کے لیے قربانی دینے والو ں کی کمی نہیں ۔
ماضی میں تو یہ صورتحال رہی ہے کہ اگر پارٹی کا کوئی کا رکن جیل کی ہوا کھا کر نہیں آیا تو وہ پارٹی میں بھی سر خرو نہیں ہو سکا ۔ یہا ں وہی اتنا بڑا سرخرو ہوتا جتنا عرصہ جیل کا ٹتا ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جماعت قربانیاں دینے والو ں سے بھری پڑ ی ہے، اس میں کمی نہیں ۔قربانیا ں دینے میں ایک دوسرے سے آگے ہی رہتے تھے ۔ اس میں چھو ٹے بڑے سبھی رہنما شامل تھے ۔ اے این پی کے ہمد رد و ں کے لیے خوشخبری ہے کہ پارٹی کے2بڑے خاندانی لیڈروں میں صلح کی نو ید ملی ہے اور کہا جارہا ہے کہ آئندہ ایک دو روز میں اے این پی بیگم نسیم ولی اور اے این پی اسفند یا ر ولی گر وپ ایک دوسرے میں ضم ہو نے کا باقاعدہ اعلا ن کر دیں گے ۔ اس طرح تفرقہ ختم ہو جا ئے گا ۔ کوئی 5 سال پہلے بیگم ولی خان جو سیا ست سے ریٹائر ڈ زندگی گزاررہی تھیں، انھو ں نے گزشتہ انتخابات میں اے این پی کی نا کامی پر اسفند یار کو مو رد الزام ٹھہر اتے ہو ئے پا رٹی کی قیادت سنبھالنے کااعلا ن کیا تھا مگر اے این پی میں دوسری اور تیسری سطح پر جمہو ری اقدا ر کی پا سداری رہی ہے ۔ اس وجہ سے بیگم ولی خان کے ساتھ پا رٹی کی کوئی اہم شخصیت کھڑی نہیں ہوئی ماسوائے فرید طوفان کے جن کی پارٹی رکنیت 10 سال کے لیے منسوخ کردی گئی ہے ۔ فرید طوفان کی پا رٹی کے لیے خدمات نا قابل فرامو ش ہیں مگر ان پر پابندی سیا سی وجو ہ کی بنا پر لگا ئی گئی تھی کیو نکہ پا رٹی کے ایک مرکزی رہنما افراسیا ب خٹک کے امریکی دوروں کے دوران ان کی سوچ وفکر میں یہ بٹھا دیا گیا تھا کہ امر یکہ دنیا میں سب سے بڑا سیکو لر ملک ہے ۔
وہ دنیا میں اسی فکر کا نفاذ بھی چاہتا ہے اور اسی فلسفہ کے حامیوںکا تعاون بھی ہے چنا نچہ اس فکر سے ہم آہنگی کی رکا وٹیں دور کرنے کی غرض سے بیگم نسیم ولی خان اور فرید طوفان کا پتہ کا ٹا گیا تھا ۔ سیا ست میں یہی ظاہر کیا جا تا رہا کہ اسفند یا ر ولی اور بیگم نسیم ولی کے درمیان کچھ خاندانی اختلا فات ہیں جس کی وجہ سے بیگم نسیم ولی خان نے پا رٹی کی تشکیل نو کی ہے ۔ آپ اے این پی کی نظریا ت اور فکر سے کتنا ہی اختلا ف کریں تاہم یہ بات یقین سے کہی جاتی ہے کہ خاندانی جھگڑوںکو پا رٹی سیاست میں نہیں استعمال کیا جاتا اور نہ پا رٹی کو اس میں گھسیٹا جا تا ہے چنا نچہ یہ کہنا کہ بیگم نسیم ولی خان نے خاندانی تنا زعہ کی بنا پر پارٹی میں گروپ بندی کی، یہ بہت گھٹیا سوچ اورالزام ہے ۔ بیگم ولی خان نے پارٹی کی تشکیل نو کے وقت ان عوامل کا ذکر کردیا تھا جس کی بنا پر انھو ں نے پا ر ٹی کی تشکیل نو کی تھی ۔پاکستان میں لا تعدا د قوم پر ست جما عتیں ہیں ۔ ان میں سب سے زیا دہ صوبہ سند ھ میں ہیں لیکن کہیں بھی ان جما عتو ں کو ایسی عوامی مقبولیت حاصل نہیں کہ انتخابات میں قابل ذکر کا میا بی حاصل کر سکیں ۔ پور ے پا کستان میں اے این پی اس اعزا ز کی حامل ہے اوراس کی وجہ بھی یہ ہے کہ صوبہ کے پی کے میں یہ واحد قوم پر ست جماعت رہی ہے ۔اس کی سیا ست کا محور علاقائی رہا ہے ۔ ویسے پاکستان میں خود کو قوم پر ست کہلو انے والی جما عت کا کر دار قوم پر ستی نہیں بلکہ علا قائی پر ستی رہا ہے ۔ اس وقت صوبہ کے پی کے میں قومی وطن پارٹی بھی کا میا بی سے کا م کر رہی ہے مگر اس کا کردار علا قائی پرستی نہیں بلکہ ملک گیر قومی ہے ۔ گویا اس مر تبہ اے این پی آئند ہ انتخابات میں قومی وطن پا رٹی سے سخت مقابلہ کا سامنا ہو گا ۔ ان کے لیے وقت کا تقاضا یہی تھاکہ وہ دھڑے بندی ختم کر دیں۔ اب قیا م پا کستان سے پہلے کی دھڑے بازی کی سیا ست کا دور بھی نہ رہا ۔اس زما نے میں یعنی تحریک پا کستان کے دور میں صوبہ کے پی کے میں 2ہی مر کزی سیا سی جماعتیں تھیں ۔گو اس وقت ، کسان تحریک ، مجلس احرار اور خاکسار تحریک کا بھی زور وشو ر تھا مگر سیا ست میں جس طرح گزشتہ4 عشر وں کے دوران پا کستان میں مسلم لیگ ن اور پی پی کی دو محوری سیاست کا زور نظر آیا، اسی طر ح اس دور میں مسلم لیگ اور سرخ پو ش سیا سی محور تھے ۔ سیاسی حریفوں کے دھڑے ہو ا کر تے تھے ۔ اس زمانے میں اگر کوئی خان مسلم لیگ میں چلاجاتا تو اس کا پوردھڑا بھی اسی پا رٹی میں جا تا مگر ان کا حریف دھڑا کا نگر یس میں جا شامل ہوتا تھا ۔ اب یہ بات نہیں رہی ۔ اب صرف شخصیا ت کا اثرو رسوخ باقی رہ گیا ہے ۔