Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قیمت

آزادی و خود مختاری قائم رکھنے کے لئے قوموں کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں
* * * محمد مبشر انوار* * * *
جنوبی ایشیا میں جاری دہشت گردی کی جنگ میں خطے کے حالات دن بدن گمبھیراور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں کہ دہشتگردی کا قلع قمع کرنے میں پیش پیش اکلوتی عالمی طاقت ،اپنی طاقت اور غرور کے زعم میں اپنے قدیم حلیفوں کے ساتھ ساتھ اب غیر متعلقہ ریاستوں کو اپنا نیا حلیف اور خطے میں نیا کردار سونپنے کی تیاریوں میں ہے مگر عالمی اکلوتی طاقت بھول رہی ہے کہ یہی خطہ افغانستان وہ واحد جگہ ہے جہاں اپنے وقت کی2 عظیم طاقتیں اپنی طاقت اور غرور ملیا میٹ کروا چکی ہیں ۔دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نئی امریکی انتظامیہ اور حکومت کیا کیا اقدامات اٹھا رہی ہے کہ تناظرمیںیہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا ان کے یہ اقدامات ماضی کی روشنی میں کس حد تک درست ہیں اور انہیں یہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے اور اس کے بالآخر نتائج کیا ہوں گے؟ماضی میں دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی حیثیت فرنٹ لائن ا سٹیٹ کی رہی ہے اور اس میں پاکستان کا کردار امریکی انتظامیہ کے نزدیک دہرے معیار کا حامل رہاجس کے نتیجے میں امریکہ نے نہ صرف پاکستان کیخلاف مختلف کارروائیاں کیں بلکہ اس کو دی جانے والی امداد بھی حکومت کی بجائے این جی اوز کے حوالے کر دی گئی ،یہ الگ بات کہ اس انتظام کے باوجود امریکی انتظامیہ مطلوبہ نتائج نہ حاصل کر سکی اور پاکستانی عوام ان کی امداد کے ثمرات سے ہنوز محروم ہے۔ امریکہ اس جنگ میں کس قدر سنجیدہ یا مخلص ہے،یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ 9/11کے سانحے کی تحقیقات ابھی تک گرد میں لپٹی ہوئی ہیں اور آئے روز نئے انکشافات منظر عام پر آتے رہتے ہیں ،جس کی آڑ میں امریکہ نے اتنی بڑی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کیا واقعی یہ جنگ ’’گرم تعاقب‘‘ ہے یا ان معدنیات کا حصول ہے جو افغان زمین میں دفن ہیں؟ نئے امریکی صدر نے اپنے پالیسی بیان میں جہاں ایک طرف پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا ہے تو وہیں اپنے نئے حلیف ہندوستان کو بھی ’’ڈو مور‘‘ کا سندیسہ دیا ہے لیکن امریکہ نے ابھی تک ’’بموں کی ماں‘‘ داغنے کے نتیجے میں ہلاک شدگان ،ان ہندوستانی باشندوں کی بابت ہندوستان سے استفسار تک نہیں کیا کہ ہندوستانی باشندے افغان سر زمین پر دہشتگردوں کے ساتھ کس کھیل میں مصروف تھے؟سارا زور اگر صرف ہو رہا ہے تو فقط اس پروپیگنڈے کی بنیاد پر کہ سر زمین پاکستان ان دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان حقانی گروپ کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہے جبکہ افغانستان کی سر زمین سے جو دہشت گردی پاکستان میں کی جارہی ہے یا پاکستان سے بھاگنے والے دہشت گرد جو افغانستان میں پناہ حاصل کرتے ہیں،انہیں امریکی و اتحادی افواج ختم کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ہندوستان نے پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ تقریباً 14 قونصلیٹ کیوں قائم کررکھے ہیں؟بلوچستان میں ہندوستان کا پکڑا جانے والا ’’بندر‘‘ کیا گل کھلا رہا تھا ،کس طرح امن و امان کو برقرار رکھنے کی پاکستانی کوششوں کوسبو تاز کیا جا رہا ہے؟افغانیوں کو یہ تاثر کون دے رہا ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے ،جو افغان سرزمین پرامن کی راہ میں حائل ہے،ان معصوم افغانیوں کے ذہنوں کو اس حد تک پراگندہ کیا جا چکا ہے کہ وہ جو دہائیوں تک پاکستان میں پناہ گزین رہے،اس ملک کے وسائل سے اپنے مفادات کشید کرتے رہے ،بیرون ملک اپنے مذموم کارناموں سے (جرائم پیشہ عناصر)
اس وطن کو بدنام کرتے رہے، آج ببانگ دہل اس ملک کی برائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ گند کس نے ان کے ذہنوں میں انڈیلا ہے؟آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان امن کی خاطر کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہے؟ تو یہ آپ کی شدید ترین غلطی ہے یا دوسری صورت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں آپ کے دعوے بھی ویسے ہی ہیں جیسے ہندوستان کے ،جو ایک طرف افغانستان میں انفرااسٹرکچر کی خاطر سرمایہ کاری کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے شہری ،بقول آپ کے دہشت گردوں کے کیمپوں میں ‘‘ہلاک شدگان کے طور پر شناخت ہوتے ہیں۔چلئے اسی بہانے ہندوستان کو بھی آزما لیں کہ زیرزمین کارروائیوں کے ماہر میدان میں کیا گل کھلاتے ہیں،ان کی جرأت اور مہارت کا مظاہرہ ہو جائے گا کہ امریکہ کو ابھی تک ان کی صلاحیت اور اہلیت کا اندازہ نہیں یا امریکہ اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ ڈھوکم میں حال ہی میں ہندوستانی فوج کی کارگزاری کیا رہی ہے؟ہندوستانی عوام کتنی رغبت سے فوج میں شامل ہوتے ہیں،اس کا اندازہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی بے شمار ویڈیوز سے بخوبی ہو جاتا ہے،فوج کے اندر کس قسم کا مزاج ہے اور افسران کا فوج کے ساتھ کیسا رشتہ ہے؟ضروری ہے کہ امریکہ، ہندوستان کو براہ راست میدان میں لائے نہ کہ صرف میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے دے،ہندوستان کو معلوم ہونا چاہئے کہ میدان میں کیسے لڑا جاتا ہے اور زیرزمین کارروائیاں کیسے ہوتی ہیں۔ امریکہ نے بیک جنبش قلم پاکستان کی خدمات اور قربانیوں سے جس طرح انحراف کیا ہے،اس پر لازم ہے کہ پاکستان اس کا جواب دے لیکن پاکستان کے جواب دینے سے قبل ہی چین نے ،جس کے مستقبل کے حوالے سے بے شمار منصوبوں میں پاکستان کی مبینہ اہمیت ہے،کھل کر سامنے آیا ہے اور اس نے نہ صرف عالمی برادری کو بالعموم بلکہ امریکہ سے بالخصوص پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ چین کسی بھی صورت پاکستان کو اکیلا نہیں چھوڑے گا ،تو روس نے بھی ببانگ دہل دنیا کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرنے کا کہا ہے۔
بدلتی ہوئی دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی طاقت پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع سے صرف نظر کرتی ہوئی پاکستان کو ’’ڈومور‘‘ کے لئے مجبور کر سکے ماسوائے ہمارے اپنے اعمال اور کردار کی کمزوری ہی وہ واحد جنس ہے ،جو پاکستان کو عالمی طاقت کے سامنے سر نگوں کراتی ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ جو صلاحیتیں اور نعمتیں اللہ رب العزت نے پاکستان کو عطا کر رکھی ہیں ،پاکستان کسی بھی طور کسی بھی عالمی طاقت سے کم نہیں اور بھر پور صلاحیت اور اہمیت رکھتا ہے کہ عالمی مسائل میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔ فی الوقت جن مسائل کا پاکستان کو سامنا ہے،وہ عارضی ہیں اور پاکستان ان کے حل کی جانب بتدریج بڑھ رہا ہے،ملک میں قانون کی بالا دستی کے علاوہ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے والی قیادت سے چھٹکارا عوام نے خود حاصل کرنا ہیں جو بذریعہ جمہوریت اور انتخاب ممکن ہے ۔ان حالات میں بھی ،جب سیاسی قیادت اپنے مسائل سے نبرد آزما ہے، فوجی قیادت نے بھرپور اعتماد کے ساتھ امریکی سفیر کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی (مالی و اقتصادی و دفاعی)امداد کی ضرورت نہیں بلکہ دو ریاستوں کے درمیان تعلقات میں اعتماد کی فضازیادہ ضروری ہے۔ فوجی قیادت کا یہ میلان بلا شک و شبہ احسن ترین ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اعتماد کی جس فضا کا مطالبہ فوجی قیادت نے امریکہ سے کیا ہے،اس کے لئے وہ کانٹے چننے کی ضرورت ہے جو ان کے پیشرو ؤں نے ان تعلقات میں بو رکھے ہیں،جب تک ہماری سیاسی و فوجی قیادت ان کانٹوں کو نہیں چنتی ،اعتماد کی فضا بحال ہونا ممکن نہیں۔ آزادی و خود مختاری قائم رکھنے کے لئے قوموں کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے،دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں وہ تمام قومیں جو اس سے براہ راست متاثرہ ہیں ،کسی نہ کسی صورت اس کی قیمت چکا رہی ہیں لیکن اب باری ہندوستان کی ہے کہ وہ صرف میٹھا میٹھا ہپ ہپ نہ کرے بلکہ حقیقتاً قربانی دے کہ چرب زبانی سے آپ زیادہ دیر تک دنیا کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔

شیئر: