Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچپن میں پیسے نہیں تھے ،آج پیسے ہیں خواہش نہیں ہے

جب اللہ نے ہر آسائش سے نوازا تو اب وہ سارے بچپن کے شوق ختم ہوگئے
* * * ممتاز شیریں،دوحہ ،قطر* * *
(چوتھی قسط)
بچپن کی محرومیاں یاد آتی ہیں تو میٹھا درد دے جاتی ہیں۔ میرے بہت بچپن میں میرے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ شاید کہ میں جب 4 سال کی تھی ۔ کنبہ بڑا تھا اور آمدن کم تھی بلکہ والد صاحب کے انتقال کے بعد نہ ہونے کے برابر تھی۔ والدہ اس زمانے کی سیدھی سادی جلد ہاتھ پیر چھوڑ دینے والی خاتون تھیں۔ والد صاحب کے انتقال کے وقت بھائی زیر تعلیم تھے۔ اس مشکل کے وقت میں بھائیوں نے بہت جدوجہد کی اور قربانیاں دیں ، باپ کی کمی کو پورا کیا، لیکن بچپن کی محرومیاں ،بچپن کے سمجھوتے ہماری ذات میں خلا بن جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں ۔
ہم کبھی اس کو کتابوں سے ، کبھی تصویروں سے، کبھی شعروں سے اور کبھی دولت، شہرت اور تعلقات سے بھرنے کی کوشیش کرتے رہتے ہیں لیکن یہ خلا کبھی نہیں بھرتے۔ایسے حساس لوگ جنہوں نے بچپن میں کچھ نشیب و فراز دیکھے ہوں وہ ان بیتے دنوں کو کبھی نہیں بھولتے۔مجھے اپنے بچپن کی بے شمار چیزیں ،باتیں اور محرومیاں آج تک یاد ہیں۔ بچپن میں مجھے کھلونے بہت پسند تھے۔ نت نئے اور جدید کھلونے جو میری ہمجولیوں کے پاس ہوتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ اس وقت حالات ایسے نہیں تھے کہ ہم ان کھلونوں کو خرید سکتے۔ بچپن میں آئس کریم بہت اچھی لگتی تھی لیکن مہنگی تھی اس لیے کھا نہیں سکتے تھے۔ سوچا کرتی تھی جب پیسے ہوں گے تو خوب کھاؤں گی لیکن اب جب اللہ نے ہر آسائش سے نوازا تو اب وہ سارے بچپن کے شوق ختم ہوگئے ۔مجھے اکثر ابن انشاء کی یہ نظم بہت یاد آتی ہے اس کو میں نے اپنی ڈائری میں لکھ رکھا ہے۔۔۔۔!
 ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
 جی مچلتا تھا ایک اک شئے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
 لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں،
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
 خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے،
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
 آج چاہوں تو ایک اک دکان مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
 نارساء کا اب دل میں دھڑکا کہاں،
پر وہ چھوٹا سا۔۔۔الہڑ سا لڑکا کہاں۔۔۔!
* ہماری زندگی اور ہماری محرومیاں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ لڑکپن کے خواب بھی کیسے ہوتے ہیں۔۔۔خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔نشانیاں رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہماری ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ بچپن میں سوچتے ہیں کہ جب پیسے ہوں گے تو یہ کھائیں گے یہ پہنیں گے یہ خریدیں گے لیکن آج پیسے ہیں لیکن وہ جی نہیں ہے۔۔۔۔ان محرومیوں سے ہم نے یہ ضرور سیکھا کہ اپنی تکلیف محسوس کرتے ہوئے دوسروں کا درد محسوس کرنے کی کوششیں کریں۔ اپنی کل کی محرومی کو یاد کر کے کسی کی آج کی محرومی کو دور کرنے کی کوشیش ضرور کریں۔
* میری والدہ "کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ" کی قائل تھیں گو کہ اس وقت ہمیں سونے کا نوالہ کھلانے کو ان کے پاس کچھ نہ تھا لیکن دیکھنے کو شیر کی نگاہ تھی سو یہ نگاہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے، سونے جاگنے ہر ہر بات پر پابند رہا کرتی تھی۔ ہمیں سختی کے ساتھ تاکید تھی کہ اسکول سے گھر اور گھر سے سیدھے اسکول جانا ہے ۔درمیان میں کسی دوست سہیلی کے گھر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان ہی دنوں کا ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ میں کلاس 6 میں تھی۔ اسکول کی طرف سے کسی دوسرے اسکول تقریری مقابلے میں جانا تھا ۔امی کو ہم نے بتا دیا تھا کسی دوسرے اسکول جانے کی اجازت بھی صرف بھائی کی سفارش پر ملی تھی وہاں تقریری مقابلہ اور پھر انعامات کی تقسیم میں کچھ دیر ہو گئی۔ ہمیں چونکہ فرسٹ پرائز سے نوازا گیا تھا۔ لہٰذا ہم ذرا ’’اسپیشل پرسن‘‘ بنے سب کے درمیان گھرے بیٹھے تھے کہ اچانک سے شور شروع ہوگیا کہ روحی کون۔۔۔؟۔۔۔۔آپ کس کو ڈھونڈ رہی ہیں۔۔؟ اپنے نام پر ہم چونکے( گھر میں ہمیں روحی پکارا جاتا ہے)۔
دیکھا تو ہماری امی حضور ہمیں ڈھونڈتے اس اسکول تک پہنچ چکی تھیں پھر ہم نے وہاں موجود اپنے اساتذہ کو بتایا کہ ہماری والدہ ہیں۔ وقت پر گھر نہ پہنچنے کی وجہ سے ہمیں تلاش کرتی یہاں آگئی ہیں۔ وہاں موجود سب نے نہایت عزت و اکرام کے ساتھ امی کو بٹھایا اور تقریب کے اختتام پر ہمیں ان کے حوالے کیا۔
* بچپن میں ہم بہت سادہ یعنی دوسرے معنوں میں" بے وقوف" بھی ہوا کرتے تھے۔ اپنی بے وقوفی کا ایک واقعہ آپ کو سناتے ہیں پلیز ہنسئے گا نہیں۔۔۔۔ہمارے ایک عزیز نے ہمیں سعودی عرب سے ایک موتیوں کی مالا لا کر دی تھی۔۔۔۔شاید کہ وہ سچے موتیوں کی مالا تھی اس وقت بہرحال ہمیں سچے جھوٹے کی پہچان نہیں تھی۔ * جب میں 7،8 سال کی تھی شاید۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے سفید رنگ کا بڑا خوبصورت سا پھولا ہوا فراک پہنا ہوا تھا اور خود کو کوہ قاف کی شہزادی سمجھتے ہوئے اٹھلاتی ، ہوئی ادھر ادھر گھومتی پھر رہی تھی شاید عید کا دن تھا۔
* اس مالا کی شامت آئی تھی کہ وہ میرے گلے کی زینت بن گئی۔
* آپ کو معلوم ہی ہے کہ عید کی دوپہر یں کتنی بور ہوتی ہیں۔ گھر کے سب بڑے سو گئے۔ میں اور میری چھوٹی بہن کھیلنے میں مصروف تھیں کہ اچانک مجھے فرش میں ایک سوراخ نظر آیا۔ دو منزلہ گھر تھا، ہم اس وقت دوسری منزل پر تھے، ڈرائنگ روم پہلی منزل پر تھا اور عین اس جگہ کے نیچے تھا جہاں میں اس وقت کھڑی اس سوراخ کو دیکھ رہی تھی۔ * اللہ جانے کیوں اور کیسے میرے ذہن میں آئیڈیا آیا، کہ میں اوپر کھڑی ہوتی ہوں اور مالا کا ایک ایک موتی اس سوراخ میں ڈالتی جاتی ہوں اور چھوٹی بہن نیچے جا کر انہیں اکٹھا کر لے گی اور گھر والوں کے اٹھنے سے پہلے دوبارہ مالا بنا کر پہن لوں گی۔ کتنی آسان بات تھی، پر کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* میں نے یونہی کیا ۔قینچی سے دھاگا کاٹا اور ایک ایک موتی اس سوراخ میں ڈالنا شروع کردیا، موتی نیچے چلا جاتا۔ بہن نے اکیلے نیچے جانے سے انکار کر دیا ، سوچا چلو اب ایک ہی بار نیچے جائیں گے اور اٹھا لیں گے۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ایک دو کے بعد چیک کر لیا ہوتا۔۔۔!!!
* آہستہ آہستہ سب موتی اس سوراخ میں چلے گئے۔ آخری موتی اس میں ڈالنے کے بعد ہم دونوں نیچے بھاگیں کہ اب سب موتیوں کو اکٹھا کر لیں تو کمرے میں ایک موتی بھی نظر نہ آیا۔ ، چھت کی طرف دیکھا تو وہاں تو کوئی سوراخ ہی نہیں تھا ، اب تو پسینے چھوٹے۔ فورا" اوپر بھاگیں۔ جھاڑو کا تنکا نکالا اور اس سوراخ میں سے موتی نکالنے کی کوشش میں پسینہ پسینہ ہو گئی لیکن ایک بھی موتی برآمد نہ ہوا۔۔۔!!! اس سے آگے کی تفصیلات بیان کرنے کے لائق نہیں ہے کہ گھر والوں سے ہماری کیا خاطر تواضع ہوئی۔

شیئر: