Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا یہی لچھن ہوتے ہیں جنگ جیتنے کے ؟

کیا کہیں سے بھی کسی کو لگ رہا ہے کہ ہمارا ملک حالتِ جنگ میں ہے
* * وسعت اللہ خان* *
پرانے ٹھکانوں سے نکالے گئے دہشتگرد نئے ٹھکانے ڈھونڈھ رہے ہیں ، ایک دوسرے سے رابطے کے نت نئے طریقے اپنا رہے ہیں ، نیا خام مال بھرتی کرنے کیلئے اصل مقصد کو دینی لبادے سے ڈھانپنے کیلئے زیادہ پرکشش تاویلات گھڑ رہے ہیں۔پہلے سے زیادہ سفاک وارداتوں کیلئے پہلے سے زیادہ مہارت حاصل کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ فوج دہشتگردی کیخلاف ترجیحاتی جنگ لڑنے پر بالاخر کمر بستہ نظر آتی ہے۔یہ الگ بات کہ جہیز میں ملے پرانے ا سٹراٹیجک اثاثوں سے پوری طرح جان نہیں چھڑائی جا سکی۔ دہشتگردی کے یک نکاتی ترجیحاتی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جس بنیادی یکسوئی کی ضرورت ہے وہ اب تک پیدا نہیں ہوسکی۔ ایک وقت میں ایک اژدھے پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے تمام اژدھوں سے بیک وقت کشتی لڑنے کی خواہش کسی کو بھی قبل از وقت تھکا سکتی ہے بھلے وہ رستم ہو کہ سہراب۔دنیا کی کوئی بھی فوج بیک وقت4 جنگیں نہیں جیت سکتی۔بھلے وہ رومن ایمپائر ہی کیوں نہ تھی ، بھلے وہ آج کا امریکہ ہی کیوں نہ ہو، بھلے وہ پاکستان کی پراعتماد عسکری قیادت ہی ہو۔ ایک سے زائد جنگیں صرف ایک طریقے سے جیتی جا سکتی ہیں،یعنی اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑوا دومگر یہاں تو ریاستی ادارے ہی ایک پیج پر نہیں تو دشمن کے دماغ کا پیچ کیسے کس پائیں گے۔
ہم ا سٹراٹیجک ڈیپتھ کا خواب ہی دیکھتے رہ گئے اور دشمن نے ا سٹراٹیجک ڈیپتھ حاصل کر بھی لی۔یقین نہ آئے تو ہم میں سے ہر کوئی اپنے دل و دماغ ، زبان ، قلم اور قدم کو ٹٹول کر محسوس کر لے۔ جہاں تک سویلین حکومت کا معاملہ ہے تو اب نہیں تو کب معلوم ہو گا کہ جس کا اختیار ہے۔ دراصل وہی بااختیار ہے یا اختیار کسی کے نام پر ہے اور استعمال کوئی اور کررہا ہے۔ صرف سرکش سروں کی تعداد گھٹانے سے سرکشی کتنی دیر کیلئے قابو میں آسکتی ہے جب تک ان فکری سرچشموں پر جوابی نظریاتی بند باندھنے کی تدبیر نہ کی جائے جو ذہنوں کو مسلسل آلودہ کر رہے ہیں۔ ہاں ہم آپ کی تعریف کرسکتے ہیں کہ آپ نے انتہاپسندی کے تربیلا ڈیم کی جھیل میں 4 لاکھ کیوسک پانی مقید کردیا ہے مگر اس 4لاکھ کیوسک کے بارے میں بھی سوچا جو ابھی راستے میں ہے اور اس 2 لاکھ کیوسک کے بارے میں بھی سوچا جو جھیل لبالب بھرنے کے سبب اوور فلو کر رہا ہے۔سرچشمے پر کنٹرول کے بجائے اپنی اپنی فصل بچانے کی تگ و دو سے کیا تباہ کاری کم ہوجاتی ہے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ لمبی لڑائی میں گیہوں سے زیادہ گھن پستا ہے اور سب سے زیادہ زخم عام آدمی کو ہی لگتے ہیں مگر عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ سیاہ اور سفید کے درمیان جو بھورا رنگ ہے اسے وہ کیا سمجھے اور کس نظر سے دیکھے اور کتنے یقین سے دیکھے۔ وہ اس لڑائی میں کس کا کھل کے ساتھ دے اور کسے اپنا اصل دشمن جانے۔اس بازار میں ہر دوکان دار ایک ہی برانڈ کا ملتانی سوہن حلوہ بیچ رہا ہے۔کیسے پتہ چلے کہ کون سا حلوہ اوریجنل اور کون سا دو نمبر ہے۔
پیکنگ تو سب ہی کی دیدہ زیب اور یکساں ہے۔ عام آدمی چونکہ طبعاً مذہبی ہے لہذا وہ رہنمائی کیلئے علما کی طرف دیکھتا ہے مگر بیشتر علما اب تک نہیں طے کر سکے کہ وہ خرگوش کے ساتھ ہیں کہ شکاری کے ساتھ۔وہ کھل کے یہ بھی نہیں بتا پا رہے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا ؟ ظلم کیا ہے اور مظلومیت کیا ؟ فتنہ کیا ہے اور تدارک کیا ؟ یہ وقت شادی کی عمر کے شرعی تعین کا ہے یا خودکشوں کی شرعی حیثیت متعین کرنے کا ؟ اس بات پر گتھم گھتا ہونے کا ہے کہ کون سا فرقہ اسلامی ہے اور کون سا دائرہ اسلام سے خارج یا یہ بتانے کا ہے کہ قاتل ہی دائرۂ اسلام سے خارج ہے ؟ یہ وقت مدارس کے آڈٹ اور تعلیمی نصاب سے نفرت انگیز مواد نکالنے پر تعاون کرنے کا ہے یا ایسی تجاویز دینے والوں کو کوسنے کا ؟ کیا کہیں سے بھی کسی کو لگ رہا ہے کہ ہمارا ملک حالتِ جنگ میں ہے اور ہم اس جنگ کو جیتنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ؟ کیا آج بھی میڈیا کو ریٹنگ کے علاوہ کچھ اور سجھائی دے رہا ہے ؟ کیا رُشوتیوں نے یہ سوچ کر اپنا نرخ کم کیا ہے کہ جب تک حالات نارمل نہیں ہوتے وہ کم رشوت پر ہی گزارہ کریں گے ؟ کیا سیاستدانوں نے خود سے کوئی ایسا وعدہ لیا ہے کہ حالت کی سنگینی کو منہ پھٹ بیانات سے اور سنگین نہیں بنائیں گے۔کیا لینڈ مافیا نے کوئی خفیہ عہد کر لیا ہے کہ جب تک اس ملک کی زمین اندرونی و بیرونی دشمنوں کے قبضے سے آزاد نہیں ہوجاتی تب تک ہم کسی ہم وطن کی زمین جعلسازی ، دھونس یا دھوکے سے نہیں ہتھیائیں گے ؟ کیا ٹیچر اس نکتے پر متفق ہو پائے ہیں کہ اب جہالت کی فصل مزید نہیں بوئی جائیگی اور جتنی توجہ تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر ہے کم ازکم اتنی ہی توجہ بچوں کو پڑھانے پر بھی دی جائیگی۔کیا گھوسٹ ملازمین کی ایسوسی ایشن نے حلف اٹھایا ہے کہ حالات کی بحالی تک وہ اپنے حصے کا کام کرنے کی زحمت بھی اٹھاتے رہیں گے۔ اور جو لوگ دہشتگردی و انتہا پسندی کیخلاف اس جنگ میں اپنی اپنی بساط کے مطابق کچھ بھی نہیں کر رہے وہ تو کمال کر رہے ہیں۔ کراچی میں فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن پر روزانہ 10تا 15 ہزار کالیں آتی ہیں۔90 فیصد کالیں کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ میرے دل میں آگ لگ گئی ہے۔پلیز فائر ٹینکر روانہ کردیں…‘‘ کیا یہی لچھن ہوتے ہیں اپنی بقا کی جنگ سے دوچار قوموں کے ؟؟

شیئر: