Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج ادا ہوگیا … مگر کیا قبول ہوا ؟

مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ولی اللہ بننا بہت مشکل کام ہے، اس کیلئے برسوں کے مجاہدوں اور ریاضتوں کی ضرورت ہے حالانکہ یہ بات بالکل درست نہیں ’’ولی اللہ ‘‘کا مطلب ہے ’’اللہ کا دوست‘‘اور ولی اللہ بننا ہر آدمی کے اختیار میں ہے کہ جب چاہے وہ ولی اللہ بن جائے۔
آپ چاہیں تو ابھی ولی اللہ بن سکتے ہیں۔ ایک منٹ میں آدمی اللہ رب العزت کے سامنے شرمندہ ہوکر اپنے سب گناہوں پر توبہ کرلے تو گناہوں سے پاک ہوجائیگا کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ’’ گناہ سے توبہ کرنیوالا گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘
توبہ وہ کلیدی کیمیا ہے جو مٹی کو سونا اور جوہر بنادیتی ہے ، منٹوں میں آدمی گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔
یہاں ایک بات سمجھ لیجئے! ایک ہے حج کا قبول ہونا اور ایک ہے حج کا ادا ہونا، دونوں باتیں الگ الگ ہیں۔
حج تو اس وقت ادا ہوجائیگا جب آپ حج کے سارے اعمال قاعدے کے مطابق ادا کرلیں گے ۔
حج کے 2ہی رکن ہیں، ایک وقوف عرفہ خواہ ایک منٹ کیلئے ہو اور دوسرے طواف زیارت ، باقی کچھ واجبات ہیں ، کچھ شرائط ہیں اور کچھ سنن و مستحبات ہیں لہذا اگر حج شرعی طریقہ کار کے مطابق مقبول نہیں تو اس پر ثواب نہیں ملے گا اسلئے حج مقبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر اجرو ثواب بھی مرتب ہواور اگر حج سے آنے کے بعد آپ اپنے اعمال میں بہتری محسوس کرتے ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔شکر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب تم کسی نعمت پر شکر ادا کروگے تو ہم اس نعمت میں اور اضافہ کرینگے ’’اگر احسان مانوگے تو اور بھی دونگا تم کو۔‘‘ (ابراہیم7)۔ لہذا شکر کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمہارے اعمال میں اور بہتری پیدا ہوگی، نیک اعمال کا جذبہ پیدا ہوگا، گناہوں سے نفرت میں مزید اضافہ ہوگا، جتنا شکر کرتے جاؤگے اتنی ہی نعمت بڑھتی چلی جائیگی ، اعمالِ خیر بڑھتے اور گناہ کم ہوتے چلے جائیں گے حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آجائیگا کہ طاعات میں مزہ آنے لگے گا اور گناہوں سے نفرت ہوجائیگی اور اگر خدانخواستہ کبھی گناہ میں مبتلا ہوبھی گئے تو اس میں مزہ نہیں آئیگا۔
آپ حضرات حج پر تشریف لے گئے تو وہاں کے ماحول کے اثرات آپ پر پڑے اور ابھی تک وہ آثار موجود ہیں ، اس سے پہلے کہ وہ اثرات ماند پڑیں ، ان کی حفاظت کیجئے۔ یہ اثرات دراصل تقویٰ کی کیفیت ہے ، اس کی حفاظت بہت ضروری ہے ، قرآن مجید میں اس کی حفاظت کا طریقہ بتایا گیاہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے’’ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو‘‘ (التوبہ119)۔
اس آیت میں پہلے یہ کہا گیا کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو۔اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی نہ کرو اور گناہوں سے بچو۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: