Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تخلیقی تجربے کو عورت ہی بیان کرتی ہے ، حمیرہ راحت

 
 پروین شاکر جیسی شہرت تو کسی کو نہیں ملی تاہم نسوانی جذبات ریحانہ روحی کی شاعری میں نظر آتے ہیں(قسطِ اول)
 انٹرویو:زینت شکیل۔جدہ
٭٭آپ اپنا تعارف فرمائیے:
میرا پورانام سیدہ حمیرا راحت ہے۔لوگ حمیرا راحت کے نام سے جانتے ہیں۔میری پیدائش31جولائی کی ہے۔جائے پیدائش رحیم یارخاں ہے۔میرے بچپن میں والدین کراچی آ گئے تھے۔میں3 بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ہم سب بہن بھائیوں نے کراچی ہی میں اپنی تعلیم مکمل کی ۔ میں نے اردو ادب میں ماسٹرز کیا اوراب میں کراچی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہوں۔میں پاکستان کے ایک معروف اسکول سسٹم سے منسلک ہوں اور 10 سال سے تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہوں۔میں شاعرہ اورافسانہ نگار ہوں۔
اگر افسانہ نگاری کی بات کی جائے تومیں اب تک 250 کے لگ بھگ افسانے لکھ چکی ہوں۔ میرے 12 افسانوں کو بہترین افسانے قرار دیا گیا جس کے باعث مجھے رائٹرز ایوارڈز مل چکے ہیں۔ میری زندگی میں ایک تاریخی لمحہ اس وقت آیا جب میں نے عصمت چغتائی کے ہاتھ سے ایوارڈ وصول کیا اور انہیں قریب سے دیکھا۔میں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کی لیکن دورانِ تعلیم میں اپنی شاعری کی اشاعت اور مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتی رہی۔شادی کے بعد شوہر عرفان احمد خان کے کہنے پر میں نے شاعری کی طرف توجہ دی اور مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرنا شروع کی۔میرا کلام مختلف معیاری ادبی رسائل میں شائع ہوتا رہا۔ میری تین کتابیں اب تک شائع ہو چکی ہیں جن میں ”آنچل میں اُداسی،تحیر عشق اور حمد و نعت طیبہ پر مبنی”رسائی روشنی تک“ میں ایک سہ ماہی رسالے ، کی مدیرہ بھی ہوں جو اس وقت پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد رسالہ ہے ۔میں 3 مرتبہ ہندوستان میں سارک رائٹرز کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہوں۔میں نے وہاں دو بار مختلف موضوعات پر مقالات بھی پڑھے۔میں جامعہ ملیہ دہلی یونیورسٹی میں اور جواہر لال نہرویونیورسٹی میں مشاعرے پڑھ چکی ہوں۔ہندوستان کے شہر دہلی میں ہندی زبان میں میری نظموں کاترجمہ کیا گیا اور اب یہ کتابی شکل میں شائع ہوئی ہے۔اس کتاب کا ٹائٹل”پانچویں ہجرت“ ہے جو میری ہی ایک نظم کے عنوان پر رکھا گیا ہے۔ میرے کچھ نمائندہ اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔
نہ جی سکے ہیں مکمل نہ پورے مر سکے ہیں
تمہارے بعد کہاں کوئی کام کر سکے ہیں
ذرا سی دیر کو بس آئینہ ملا تھا ہمیں
ذرا سی دیر میں اتنا ہی ہم سنور سکے ہیں
میںنے دو سال تک ایک نجی کالج میں بھی پڑھاےا جہاں مجھے بہترین لیکچرار کا خطاب دیا گیا اور اعترافِ خدمات کے طور ایک شیلڈ دی گئی۔آج کل میں بی ایس ایس میں اولیول کی کلاسز لے رہی ہوں۔
میری پہلی کتاب ”آنچل میں اُداسی “ پر تبصرہ کرتے ہوئے احمدندیم قاسمی نے لکھا ہے کہ : 
حمیرا راحت کی شاعری ایک جیتی جاگتی ،سوچتی،شدت سے محسوس کرتی اور بہت گہرائی میں اترنے میں کوشاں عورت کی شاعری ہے۔یہ شاعری صرف اپنی ذات کے گرد نہیں گھومتی بلکہ اپنے ماحول کی مٹی،خوشبو کو ساتھ لے کر حیات و کائنات کے آئینوں میں دور تک جھانکنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔یہ شاعری صرف ایک عورت کا چہرہ نہیں دکھاتی بلکہ اس کے مشاہدات،تجربات اور محسوسات شاہد ہیں کہ اس شاعری میں ہر عورت کا چہرہ اپنے واضح خدوخال کے ساتھ موجود ہے۔
دوسری کتاب ”تحیرِ عشق“ کے بارے میں امجد اسلام امجد کہتے ہیںکہ:
گزشتہ چند برسوں میں جن چند شاعرات نے تسلسل سے اچھی شاعری کی ہے، ان میں حمیرہ راحت کا نام بہت نمایاں ہے۔مجھے وہ کشور،فہمیدہ اور پروین سے زیادہ زہرہ نگاہ اورادا جعفری سے قریب تر محسوس ہوتی ہیں۔حمیرا راحت کی شاعری خوب صورت بھی ہے اور خوب سیرت بھی۔انہوںنے اپنے اندر کی لڑکی کے الہڑپن کواس باشعور عورت پر حاوی نہیں ہونے دیا جوان کی شخصیت کا اصل آئینہ ہے۔
سوال:شاعری کی ابتداءکیسے ہوئی، کن اساتذہ سے اصلاح لی؟
جواب: شاعری کی ابتدا ویسے ہی ہوئی جیسے عموماً ہوتی ہے۔بہت کم عمری سے مطالعہ عادت بن گیا تھا۔امی کے پاس شاعری کی کتب کا اچھا ذخیرہ تھا۔جوش ،عدم، احمد ندیم قاسمی اور ساحر کو آٹھویں جماعت ہی میں پڑھ ڈالاتھا۔رضیہ بٹ ،اے آر خاتون اور سلمیٰ کنول کے ناول امی سے چھپ چھپ کر پڑھتی تھی۔امی اپنی کتب کو کسی بچے کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتی تھیں مگر ہم بچے بھی، یعنی میں اور بڑے بھائی ان کی غیر موجودگی اور نیند کا بھر پور فائدہ ا±ٹھاتے۔ نہم جماعت میں آکرمیں نے اپنی پہلی غزل کہی۔یے غزل کسی کو دکھانے کا محل نہ تھا۔ گھر میں اخبارآتا تھا۔ لفافے پراس اخبار کا پتا لکھ کر ابو جان سے کہا کہ وہ اسے پوسٹ کر دیں۔اس طرح میری غزل اس اخبار میں طالبات کے صفحے ”نوائے طالبات“ پر شائع ہو گئی۔میری وہ پہلی خوشی مجھے آج تک یاد ہے۔زمین پر پاوں نہیںٹکتے تھے۔ابو جان میری خوشی میں برابر کے شریک تھے جب کہ امی کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔میں ڈر گئی مجھے لگا کہ مجھے شاعری نہیں کرنی چاہئے لیکن تخلیق کی ایک رو تھی جو اپنا اظہار چاہتی تھی۔اسی شوق اور جذبے نے مجھ سے ایک کہانی لکھوائی اور میری وہ کہانی بھی شائع ہو گئی بلکہ افضل صدیقی جو اُس وقت اخبارکے مدیر تھے ،انہوں نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔یوں لکھنے کا سلسلہ چل پڑا اور میں کہانیاں اور پھر افسانے لکھنے لگی۔ فرسٹ ایر میں میرے پہلے افسانے کو ”ایوارڈ“ ملا تو شوق کو اور تحریک ملی۔امی جان کو میرے افسانے لکھنے پر اعتراض نہیں تھا لیکن شاعری کے متعلق ان کے نظریات جداگانہ تھے۔ اگر چہ وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں،خود بھی شاعری کرتی تھیں۔ ایک ناول بھی لکھ رہی تھیں جو ان کی موت کے بعد آج تک ادھورا پڑا ہے۔وہ کہتی تھیں کہ شاعری انسان اپنے لئے کرتا ہے اس لئے اسے خود اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہئے۔ اپنی شاعری بھی انہوں نے کبھی نہیں چھپوائی۔اس وقت میں کسی شاعر کو نہیں جانتی تھی اس لئے اصلاح کسی سے نہیں لی اور یوں بھی میری شاعری شادی سے پہلے بہت کم چھپی ۔ میں خواتین کادن یا بچوں کا دن جیسے مواقع کے لئے نظمیں لکھتی تھی۔افضل صاحب خود بھی بہت اچھے شاعر تھے وہ خود ہی اصلاح کر دیتے ہوں گے۔میں اخبار کی سالگرہ پر ایک نظم ضرور لکھتی تھی۔میں نے فلمی اور سیاسی مضامین تک لکھے۔ شاعری پر باقاعدہ اصلاح تومیں نے اپنی شادی کے بعد محسن بھوپالی سے لی جب افسانوں کی دنیا سے باہر آ کر میں نے اپنی شاعری کو ایک انجانے ڈر سے آزاد کیااس وقت میری امی کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔
سوال: خواتین اور مرد شعراءکی شاعری میں بنیادی فرق کیا ہے؟
جواب: میرے خیال میں بنیادی فرق احساس کا ہے،گہرائی کا ہے اور درد کا ہے۔کچھ مسائل اجتماعی بھی ہیں اور کچھ انفرادی۔ تخلیق کے تجربے کو عورت سے بہتر کوئی نہیں لکھ سکتا کیونکہ وہ عملاً اس سے گزرتی ہے۔جمالیاتی پہلو ﺅں کو مرد زیادہ کھل کر بیان کرتے ہیں۔ عورت جس سماج میں رہ رہی ہے اسے مرد سے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔یہی مسائل ہیں کہ جن کی وجہ سے حکومت تحفظ خواتین کا بل پاس کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور پھر اسے رد بھی کروا دیا جاتا ہے۔لاکھ وہ مرد سے برابری کا دعویٰ کرے ، اب بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ اسے پاﺅں کی جوتی ہی سمجھا جاتا ہے ۔عورت ذات کی بے توقیری کا یہی دکھ ہے جو اس کی شاعری کے رنگ کومرد کی شاعری سے جدا کرتا ہے۔شاید عورت کی شاعری میں ذات کے دکھ کی آمیزش زیادہ ہے۔
سوال:پروین شاکر کے بعد نسوانی جذبات کی عکاسی پر مبنی کس شاعرہ نے نام کمایا ہے؟
جواب: پروین شاکر کے بعد ہمیں جو خلا نظر آتا تھا وہ بہت دیر تک نظر آتا رہا۔نام تو بے شمار سامنے آئے ہیںمگر اس جیسی شہرت شاید کسی کو نہیں مل سکی لیکن پھر بھی اگر کوئی نام لینا ضروری ہے تومیرے خیال میں نسوانی جذبات اور ایک مضبوط عورت کا پیکر ہمیں ریحانہ روحی کی شاعری میں بہتر طور پر نظر آتاہے۔ریحانہ کے ہاں جو بے ساختگی ہے ،وہ دوسری شاعرات کے ہاں کم نظر آتی ہے اور شاید اسی وجہ سے ا±ن کے اشعار بہت جلد زباں زدعام ہو کر مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔ 
سوال:تدریس اور شاعری میں فرق کی وضاحت کیسے کریں گی؟
جواب: میں جب تدریس سے وابستہ ہوئی تو میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ شاعری مجھے تدریس میں مدد دیتی ہے۔استاد اگر شاعر بھی ہو تو وہ احساس کو زیادہ احسن طریقے سے طلبا تک منتقل کر سکتا ہے۔فرق یہی ہے کہ تدریس میں ہم اپنا علم بچوں تک پہنچاتے ہیں اور شاعری میں اپنی ذات کا کرب اور محسوسات پیش کرتے ہیں۔شاعری اور تدریس کے مقاصد اور عمل اگر چہ ایک دوسرے سے جدا ہیں لیکن شاعری اور تدریس ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔
سوال:کلاسیکل اور جدید ادب میں ایک استاد کی حیثیت سے کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟
جواب: کلاسیکل ادب کی اپنی جگہ اہمیت ہے اورجدید ادب کی اپنی جگہ۔کیمبرج سسٹم میں،جس سے میں وابستہ ہوں یہ اچھی بات ہے کہ ہر 3سال کے بعداردو کی کتاب بدل جاتی ہے اور اسے قدیم اور جدید کے امتزاج سے طلبا کے لئے زیادہ دلچسپ اور زیادہ با معنی بنایا جاتا ہے۔مجھے شکایت ہے اپنے بورڈ سسٹم سے کہ میں نے جس کتاب سے اردو پیپر کی تیاری کی ،اسی کتاب سے میرے بچوں نے بھی پڑھاہے۔ہمارے ہاں جدید ادب سے طلبا کو روشناس کروانے کی ضرورت اور اہمیت کو قطعی نظر انداز کیا جاتا ہے۔بے شک میر و غالب کی اہمیت اپنی جگہ ، انہیں بھی ضرور پڑھائیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ امجد اسلام امجد ،افتخار عارف ، پروین شاکر، سلیم کوثر اور اِن جیسے بے شمار معروف شعراءکونصاب میں ضرور شامل کرنا چاہئے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: