Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش“

جب تک اردو غزل زندہ رہے گی، فراز کا نام درخشاں رہے گا
ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری۔ریاض
احمد فراز کا شمار20ویں صدی کے عظیم ترین، جدید شعرا ءمیں کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ فراز، جن کا موازنہ عام طور پر فیض احمد فیض سے کیا جاتا ہے، موجودہ دور کے بہترین شعراءمیں سے ایک تھے۔ فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ آپ14جنوری 1931ءکو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ماسٹرز کیا۔
فراز کی شخصیت اور فن پر بہت کچھ لکھا اور بہت کچھ کہا گیا ہے اور جب تک اردو غزل زندہ رہے گی، فراز کا نام درخشاں رہے گا۔ احمد فراز کا نام جب بھی آتا ہے، غزل کا پیکر ذہن میں ابھرتا ہے۔ انہیں آپ 20ویں صدی کے نصفِ آخر کی غزل کا سب سے روشن استعارہ کہہ سکتے ہیں کہ انہی کے حوالے سے ایک پوری نسل پہچانی جاتی ہے اور یقینا وہ بہت دنوں تک یاد رکھے جائیں گے:
یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
اِن سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
احمد فراز کے انداز میں سادگی کے ساتھ ساتھ پرکاری بھی نظر آتی ہے اور آپ نے غمِ دوراں کو غمِ جاناں کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے پرویا ہے:
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کرلو
اور ان کا یہ کہناکہ :
اِس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
9 برس بیت گئے فراز کو ہم سے بچھڑے، لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا:
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
احمد فراز کی شخصیت بہت ہی شوخ، زندہ دل اور چلبلی تھی۔ ان کی شخصیت کے نقوش ایسے زندہ ہیں کہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی دوری ہے ۔فراز تو قوم کا ضمیر تھے اور قوم کا ضمیر تو جاگ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کچھ چیزوں کو دھندلا دیتا ہے اورکچھ کو نہیں۔ فراز ان میں سے ہیں جِن پر وقت کی گَرد نہیں پڑتی:
شکوہ¿ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی اور جون ایلیا کے بعد فراز کا رخصت ہونا اردو ادب کا اور پاکستان کی تہذیبی زندگی کا بڑا خسارہ ہے۔ احمد فراز، فیض کی روایت کے آخری بڑے کلاسیکی شاعر تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا جانا ہم سب کے لئے بہت ہی بھاری اور ناقابل تلافی نقصان ہے:
وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر
اور فراز کا یہ کہنا کہ:
شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا تھا جو گلیوں میں غبارے لے کر
شہروالوں کو یہ خواب فروش اور اس کے خواب آج بھی یاد ہیں کیونکہ بقولِ فراز:
خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتی نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نور ہیں
خواب مرتے نہیں
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: