Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روایات ہاتھوں سے نکل رہی ہیں ، ہم ہاتھ مل رہے ہیں

 
ہم مغرب کے”منہ زور فیشن“ پر مر مٹنے کو تیار رہتے ہیں،ایسی فریفتگی کس لئے
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
دنیا میں ہر معاشرہ اپنی پسند و ناپسند کاایک معیار رکھتا ہے جو اس معاشرے کے افراد کے مزاج کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ اس طرح ہر مہذب معاشرے میں ایک جذبہ ایسا ہوتا ہے جسے انسانی جبلت کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ حیا و شرم مشرقی تہذیب کا حسن تصور قرار دیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ شرم و حیا کو مشرقی عورتوں کا زیور بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی انسان نے شرم و حیا کے تصور کو تار تار کرکے فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو ہمیشہ زوال نے اس کے دروازے پر دستک دی۔ حیا و شرم جس انسان کے اندر موجود نہ ہو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی ، نافرمانی اور فساد برپا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔معاشرے میں فساد کی جڑ بھی بے حیائی کو ہی قرار دیا گیا ہے چنانچہ جس چیزمیں بے حیائی ہو گی، وہ اسے عیب دار بنا دے گی اور اسی طرح حیا جس چیز میں موجودہو گی، وہ اسے خوبصورت اور دلفریب بنا دے گی ۔ 
جدید تہذیب نے میڈیا کی نفسیات کومخصوص طریق کار کے تحت فحاشی کے پھیلاو کے لئے اس خوبصورتی سے استعمال کیا کہ یہ ہر معاشرے میں آہستہ آہستہ عام ہو تی چلی گئی ور پھر معاشرے پر ایسا وقت بھی آ گیا کہ لوگوں کو فحاشی کے اطوار اختیار کرنے میں کوئی شرم محسوس ہونا ہی ختم ہوگئی ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اسے کبھی معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ یہ معاشرے کے اندر سرایت کر چکی ہے۔ اس نے عوام کی سوچوں کو بے حس بنا دیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عورت مجسم شرم وحیا، پاکیزگی اور حسن کانام ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جدیدیت کو فروغ دینے کے لئے ہم اپنی تہذیب سے دور ہوتے گئے جس کی وجہ سے ہمارامعاشرتی نظام زندگی درہم ہو کر رہ گیا۔ ہر ایک کی زندگی میں شدید قسم کی بدنظمی اور بے چینی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ہر شخص ایک بے چین روح اور بے چین قلب لے کر پھر رہا ہے۔ جدیدیت کو اپنانے کی فکر میں ہم اتنے آگے نکل آئے ہیں کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہو سکا کہ ہم نے اپنی شناخت ہی کھو دی ہے۔ کبھی آنچل یا دوپٹہ مشرقی خواتین کی نسوانیت اورشرم و حیا کی علامت تصور کیا جاتا تھا مگر افسوس آج کے اس ترقی یافتہ دور میں خواتین دوپٹہ لینا پسند نہیں کرتیں۔ ایک وہ دور بھی تھا جب یہی آنچل عورت کی شخصیت کو ایک منفرد اور جداگانہ احساس دلاتا تھا۔ آنچل کو ہمیشہ ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار کا آئینہ تصور کیاجاتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی ذہن میں کسی مشرقی عورت کا تصور آتا ہے توہماری سوچوں کے افق پر آنچل لہرانے لگتاہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ زمانے میں تیزی کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے۔ ہر شعبے میں تبدیلی لائی جا رہی ہے ہر چیز میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے پہناوے بھی تبدیل ہو تے جا رہے ہیں۔ ہماری تہذیب میں ایک انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ ہم کبھی مشرقی تہذیب کے امین کہلایا کرتے تھے اور ہماری خواتین شرم و حیا کی پیکر ہوا کرتی تھیں۔ جن کے سروں سے کبھی دوپٹہ نہیں اترتا تھا ۔ماضی میں ہماری خواتین دوپٹے یا چادر میں لپٹی سمٹی دکھائی دیتی تھیں لہٰذا یہی وجہ تھی کہ ان کو مستورات کہا جاتا تھاپھر نجانے کیا ہوا ، جدیدیت کی ایسی ہوا چلی کہ کیا عورت کیا مرد کوئی فرق ہی باقی نہ رہا۔ پہناوے میں ایسی تبدیلی آئی کہ آنچل تو پہلے ہی سروں سے سرک چکا تھا ،اب آہستہ آہستہ گلے میں پھندا بن کر لٹکنا شروع ہو گیا پھر لباس میں آستینیں غائب ہونا شروع ہوگئیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا کا پورا معاشرہ اس ”بے آستینی “کی زد میں آگیا کیا بچیاں ، کیا لڑکیاں ، کیا دلہنیں سب کی سب اس فیشن سے مغلوب نظر آنے لگیں۔ ہم کس سمت جا رہے ہیں ہمیں خود خبر نہیں۔ کہتے ہیں کہ وجود زن کی بقاءکے لئے حجاب لازمی ہے اسی میں ہی عورت کی شان و عزت و توقیر ہے اور اس کی شخصیت کی تعمیر بھی اسی حجاب میں ہوتی ہے مگر افسوس اکثر خواتین نے اس کو اہمیت دینا چھوڑ دی ہے ۔ جوں جوں زمانہ ترقی کی منازل طے کرتا دکھا ئی دے رہا ہے۔ جدیدیت اور فیشن کے نام پر ہماری اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری مشرقی تہذیب اور روایات نہ صرف ہمارے ذہنوں میں دھندلا رہی ہیں بلکہ آئے دن نئی نئی تہذیبوں کی رسومات انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہماری زندگی میں شامل ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارے لئے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ہم اپنی تہذیب اور ثقافت سے دور ہو رہے ہیں اورمغربی ثقافت اور رہن سہن کو اپنا کر ہم بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری ثقافت پر مغربی کلچر کابڑا اثر دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا لباس، ہماری زبان سب کچھ مغرب زدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری تہذیب اور روایات ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہیں اور ہم صرف ہاتھ مل رہے ہیں۔ اسی لئے معاشرے میں ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم اپنی ہی حرکتوں سے اپنی اخلاقی قدروں کاجنازہ نکال کر اپنی نظروں میں گر رہے ہیں۔ 
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں 2خواتین گلے میں دوپٹہ ڈالے کھڑی ہیں۔ دوپٹہ یا آنچل مشرقی معاشرے کا حسن ہوتا ہے جو عورتوں کے خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ حجاب ، چادر ، دوپٹہ یا آنچل عورتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ یہ شرم و حیا، حرمت ، نسوانیت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ آنچل نہ صرف خواتین کے چہرے کو معصومیت اور تقدس عطا کرتا ہے بلکہ ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کر کے انکی خوبصورتی اور وقارمیں اضافہ کرتا ہے۔ خواتین کا سر کو ڈھکنا تو ہماری تہذیب کی ایک روشن مثال ہے جو ہماری مشرقی خواتین کو نہ صرف دل کش بنا دیتی ہے بلکہ ان کو انفرادیت بھی عطا کرتی ہے۔ 
یہ بہت مشہور محاورہ ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا یعنی مشرقی معاشرے میں لباس کا ایک انداز، ایک طریقہ ہے اسے بہرحال مدنظر رکھتے ہوئے لباس زیب تن کرناچاہئے تاکہ نسوانیت کاتقدس اور حرمت برقرار رہے ۔ اپنے آپ کو مستور رکھنا ہی عورت کا حسن ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جوں جو ں معاشرہ ترقی کی طرف جارہا ہے ، مادی ترقی آ رہی ہے، لوگوں کے گھروں میں خوشحالی آ رہی ہے بجائے ا س کے کہ لوگ اپنی تہذیب سے مربوط رہےں، وہ مغرب کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ 
ویسے مغرب کی طرف مائل ہونا کوئی بری بات نہیں بشرطیکہ اس معاشرے کی اچھی روایات کو اپنایاجائے ۔ ہمیں مغرب کے پیرہن ہی نہیں، دیگر اطوار کا بھی جائزہ لینا چاہئے جس کے بل پر انہوں نے ترقی کی ہے۔ انہوں نے سائنسی میدان میں ، سماجیات ، ماحولیات میں صفائی ستھرائی تعمیراتی کاموں میں تعلیم اور صحت عامہ کی سہولتیں دینے میں بھی کمال حاصل کیا ہے اگر ہم ان میدانوں میں بھی ان کی تقلید کریں تو ہمارا ملک بھی ان کی طرح ترقی یافتہ ملکوں کی صف میںجا کھڑا ہو لیکن ہمارے وطن عزیز کا نقشہ ہی کچھ اور ہے۔ہم ان کی اچھی باتوں کی جانب توجہ ہی نہیں دیتے البتہ ان کے”منہ زور فیشن“ پر مر مٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ایسی فریفتگی آخر کس لئے؟ہمیں مغرب کی قابل ستائش باتوں کو بھی سیکھنا چاہئے تاکہ ہمارے ملک میں بھی ترقی اور خوشحالی آئے ۔ غربت اور مہنگائی کا عذاب دور ہو اور لوگ سکھ چین کی زندگی بسر کر سکیں ۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو اپنی تہذیب سے اتنے ناآشنا ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمیں اپنی ہی خبر نہیں۔ بہرحال اوڑھنی وہ چیز ہے جو ہماری تہذیب کی پاسبان ہے۔ اسے ترک نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے عورت کی عزت و وقار میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز جب تک اپنی حدود میں ہوتی ہے، اچھی لگتی ہے جہاں دائرے سے باہر نکلتی ہے توبدترین شر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس لئے ایسی کوئی چیز اختیار نہیں کرنی چاہئے جو پائدار نہ ہو۔ اقبال نے مغربی تہذیب کے بارے میں کہا ہے کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نہ پائیدار ہو گا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: