Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جس دل میں حیانہ رہے، ایمان بھی نہیں رہتا

زینت شکیل۔جدہ 
وہ ناقص العقل کی تعریف تلاش کر رہی تھی۔ وہ دعویٰ کر رہا تھا کہ آپ اپنے بارے میں جو کہیں گی ،وہ سب اسی عنوان کی تعریف سمجھا جائے گا ۔اس نے اپنے سے ڈھائی سال چھوٹے بھائی کے اس تخریبی الفاظ کے حملے کو برداشت نہ کرتے ہوئے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے قریب رکھا بھاری کشن اسکی طرف زوردار طریقے سے روانہ کر دیا۔ وہ بھی اسی کا بھائی تھا، آپی کا غصہ کیسے نہ جان پاتا لہٰذا تیزی سے اپنی جگہ تبدیل کرگیا اوریوں اڑتا ہوا کشن پوری قوت کے ساتھ سامنے سے آتی ہوئی بڑی آپی کو جا لگا۔ صحن کی تیز دھوپ سے لاﺅنج میں آتے ہوئے ویسے بھی مدھم روشنی میں تیز رفتاری سے آتا ہوا کشن کیسے نظرآسکتا تھا۔ سر پر کشن لگا توکئی طبق روشن ہو گئے۔بس پھر کیا تھا اچانک ان کے منہ سے نکلا ”کم عقل“۔
وہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہ رہا تھاکہ اب تو آپ کو لفظی ترجمہ بھی مل گیا ۔اب جلدی سے اپنا مضمون لکھنا شروع کر دیں۔ وہ اسے دوسرا کشن اٹھاتے دیکھ کر چھلانگ لگا کر دروازہ عبور کر گیا لیکن اسکی آواز ابھی تک آرہی تھی جو شکوہ کر رہی تھی کہ نیکی کا تو دور ہی نہیں رہا ۔
برآمدے میں سبزیاں بناتی بہو کو مخاطب کرکے اماں بی کہہ رہی تھیں کہ ہماری پوتیاں اعلیٰ تعلیم اس لئے نہیں حاصل کر رہی ہیں کہ 
 نوکری کرنا لازمی سمجھیں بلکہ یوں سمجھنا چا ہئے کہ علم انسان کو بہترین عمل کا شعور دیتا ہے ۔اپنی سہولت سے کبھی کوئی کام کرلے تو ممنوع بھی نہیں مگر نوکری کو عورت کے لئے لازمی سمجھ لینے سے مرد کو جو قوام کا رتبہ دیا گیا ہے ،وہ متاثر ہوسکتا ہے چونکہ مرد کماتا ہے اور بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے اس لئے اسے عورت پر ایک درجہ کی برتری حاصل ہے لیکن آج دیکھ لو،کس عقلمندی سے عورت کودونوں محاذوں پر برسرپیکار بنا دیا گیا ہے ۔
بہو نے کہا یہ سب بات تو آپ کیجئے گا تاکہ انہیں معلوم ہوکہ معاشرے میں بزرگوں کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ انہیںخاندان کی بہبود کا ادراک ہوتا ہے۔ وہ سب کلاس لینے کے بعد تصویری نمائش میں جانے کا ارادہ رکھتی تھیں کہ وہ بول پڑی کیا ہم گھر والوں کو بتائے بغیر جائیں گے ؟اسکی ایک ہم جماعت نے کہا کسے بتائیں۔ ابھی گھر پر کون ہوگا، زیادہ سے زیادہ ملازمین جن کو اطلاع دینا، نہ دینا برابر ہے۔
وہ بولی کم از کم آنٹی کو ایک فون تو کردو ۔وہ اس کی بات پر ہنس پڑی۔ کہنے لگی اب تو میں یونیورسٹی کی طالبہ ہوں لیکن جب ہائی اسکول میں تھی اور تیز آندھی طوفان کی وجہ سے گھبرا کر جب میں نے مام کو فون پر روتے ہوئے کہا تھا کہ آپ جلدی سے مجھے لینے آجائیں، مجھے ڈر لگ رہا ہے تو جانتی ہو انہوں نے کیا کہا تھا ؟وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ میری اس ڈرنے والی بچکانہ بات پر اتنی دور سے نہیں آسکتیں ۔مجھے چاہیے کہ میں ڈرائیورکو وقت سے پہلے فون کر کے بلا لوں۔ ہمارا گھرانہ تمہارے گھر جیسا نہیں ہے جہاں ہر فرد کو دوسرے کی فکر رہتی ہے ۔
کسی کے ہم جماعت کے آجانے پر کہے بغیر ہی چھوٹی بہن شربت بنانے دوڑتی ہے ۔بھا ئی اپنی جیب سے بیکری کاسامان لاتا ہے۔ تھوڑی دیر کی ملاقات میں ہی تمہاری دادی جان کوئی نہ کوئی سبق آموز بات کہہ دیتی ہیں جو سب کے لئے رہنما ہوتی ہے۔
وہ اماں سے کہہ رہی تھی کہ ہم لوگوں سے کہاں غلطی ہوئی ہے کہ ہمارا معاشرہ پہلے جیسا مضبوط ومستحکم نہیں رہا؟ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ انہوں نے دادی جان کی رہنمائی چاہی اور وہ گزرے دنوں کی بات کو ایسے بتانے لگیں جیسا کہ ہر منظر انکی نگاہ میں مقید ہو۔
صدیوں کی تاریخ چند لفظوں میں سمودی۔ ہرقوم کی رہنمائی کے لئے پیغمبر علیہم السلام تشریف لائے۔ اس دنیا میں آنے والی ہر مخلوق اپنے 
خالق کے پاس واپس جائے گی۔ وہاں اس زندگی کا حساب دینا ہوگا کہ چند روزہ زندگی کو اپنی تمام قوت ،صلاحیت اور ذہانت سے حاصل کیا، آخرت کی کیا تیاری کی؟
وہ پوچھنے لگی کہ سب کی ہی غلطی ہے لیکن سب سے زیارہ کس کی ہے؟ انہوں نے اکبر الٰہ آبادی کا شعر پڑھا :
کل بے حجاب آئیں نظر چند بیبیاں 
 اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا 
پوچھاجو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا 
 کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا
آزادی¿ نسواں کا نعرہ لگاکر مشرقی اقدار کی قدیم ترین پاکیزگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا۔ عورت کی حیا میں کمی آتی گئی۔ مردوں کی غیرت و حمیت جاتی رہی۔ جدیدت کا نعرہ کتنا کھوکھلا تھا، وقت نے ثابت کردیا۔
جانناچاہئے، جس دل میں حیانہیںرہتی ،ایمان وہاں سے چلاجاتا ہے۔
 
 
 
 
 

شیئر: