Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاروبار اب سائنس کا درجہ حاصل کرچکا

 واشنگٹن.... کاروبار اب فیکٹری لگانے یا اسٹور چلانے کا نام نہیں رہا بلکہ یہ ایک ایسی سائنس کا درجہ حاصل کرچکاہے کہ جس کا کسی بھی ملک کی خوشحالی اور معاشی استحکام سے گہرا تعلق ہے۔ اب دنیا کے کم و بیش ہر ملک کی یونیورسٹیوں میں کاروبار ایک اہم مضمون کے طورپر پڑھایا جاتا ہے۔ متھولی نکوبے کا ایک مشن ہے۔ وہ جوہانسبرگ کی سب سے ممتاز یونیورسٹی میں کاروبار سے متعلق انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ افریقی کاروباری افراد کی نئی نسل کو پڑھاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ہم انہیں یہ اصول پڑھاتے ہیں کہ ایک پر عزم کاروباری شخص روایتی طورپر کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اس توقع پر اِس سے طالب علموں کی کاروباری صلاحیت کو تحریک ملے گی۔ ہم انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کا ادارک کریں اور یہ جانیں کہ ان میں کیا صلاحیتیں ہیں۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ آیا آپ کاکوئی مشن ہے۔کچھ امریکی یونیورسٹیوں میں بزنس کے طالب علموں کو گریجویشن سے پہلے لازمی طور پر کوئی کاروبار کرنا ہوتا ہے۔ ایلین ایلن بوسٹن کے باب سن کالج میں بزنس پڑھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اکاونٹنگ یا فنانس کے بارے میں کچھ بھی پڑھانے سے پہلے ہم انہیں کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آپ 15 لوگ ہیں، آپ ایک بزنس شروع کریں ، ہم آپ کو 2ہزار ڈالر دیں گے اور دوسرے سمیٹر کے آخر میں ا±ن میں سے تقریباً سب ہی منافع لے کر آتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ منافع لگ بھگ 50 یا 60 ہزار ڈالر تک کا ہوتا ہے جو انہیں پھر چندے کے طورپردینا ہوتاہے۔ واشنگٹن کے قریب یونیورسٹی آف میری لینڈ میں بھی طالب علموں کو لازمی طورپر کوئی بزنس شروع کرنے کےلئے کہا جاتا ہے۔ ملیسا کیرئیر کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ نے یہ کام اور بھی آسان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر کوئی کاروبار شروع کرنے کےلئے کوئی بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے بہت سے واقعات میں آپ10 ہزار ڈالر سے بھی کم سے ایک ویب سائٹ بنا سکتے ہیں۔کوئی اشتہاری کمپنی کھول سکتے ہیں اور کوئی اچھا سا چھوٹا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔

شیئر: