Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیکنالوجی کی غلامی ، احترام کے پیمانے تبدیل

 لوگ خلوص اور اپنائیت کے دو بول سننے کو بھی ترستے ہیں
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
ماضی میں جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، دنیا اتنی تیزی کے ساتھ رواں دواں نہیں تھی تو لوگوں کے درمیان انس و محبت کا بہت پیارا سا رشتہ قائم تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر اعتبار و اعتماد کرتے او ردکھ درد میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اپنے ہوں یا پرائے سبھی کے اندر قربت و محبت ، ایثار و قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا تھا۔اگر کسی پر کوئی کٹھن وقت پڑتا اور اسے مدد کی ضرورت ہوتی تو لوگ فوراًتیار ہو جاتے ۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا تھا کہ یہ میرے رشتے دار ہیں یا غیر ،یا پھر ہمیں اس کی مدد کرنے سے کیا فائدہ ہو گا ۔بس لوگ آنکھ بند کر کے اس کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے تیار ہو جاتے۔
آج کے دور میں جب دنیا ترقی کی منازل طے کرتی جا رہی ہے، انسانی رویوں کی صورتحال ماضی کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔ دیکھاجائے تو سائنس نے فاصلے مٹا دیئے ہیں، دنیا ہماری مٹھی میں بند کر دی ہے مگر ساتھ ہی ہمارے رشتوں میں خلوص کی حدت ماند پڑ گئی ہے ۔ ہماری زندگیوں میں ایثار و قربانی برائے نام رہ گئی ہے ۔ اپنائیت کے احساسات کا اظہار ایسے میں بہت کم دکھائی دینے لگاہے ۔ ایسا نہیں کہ آج کل انس و محبت کسی میں دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ آج بھی موجود ہیں۔ کتنے ہی لوگ ایک دوسرے سے ”پیار محبت اور خلوص و ایثار“ کے ساتھ ملتے اور خیال کرتے دکھائی اور گاہے سنائی دیتے ہیں مگر ان میں وہ پہلے جیسا بے لوث پن موجود نہیں۔اگر کہیں یہ جذبہ دکھائی دیتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اس کی آڑ میں اپنا الو سیدھر کرنا چاہتا ہے اور کوئی اس کے ذریعے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو وقت پڑنے پر کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتے۔یہاں تک کہ وہ کسی کو بھی اپنا بڑا بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی موجودگی کے باعث خونی رشتوں میں بھی و ہ گرمجوشی دکھائی نہیں دیتی جو ماضی میں کبھی ان رشے ناتوں کا خاصہ ہوا کرتی تھی ۔
آج سائنس کی ترقی اور ٹیکنالوجی کی غلامی کے دور میں لوگوں کی عزت و احترام کے پیمانے بھی بدل رہے ہیں۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ جہاں خلوص اور احساس کے رشتے زندہ ہوں وہاں لوگوں کی زندگیوں میں یہی عنایات روشنی کی کرن بن کر جگمگاتی ہیں۔ ان گھرانوں کے بارے میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہاں انسانوں کی زندگیوں میں دکھ اور غم کاکوئی ناگ پھن نہیں پھیلا سکتا۔ 
الغرض خلوص اور اپنائیت ہی ایسا جذبہ ہے جو کسی بھی رشتے کو مضبوط ڈور میں باندھ دیتا ہے ۔ ان رشتوں میں شکل وصورت ، مقام و منزلت، امیری و غریبی یہاں تک کہ عمر کا فرق بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہر مشکل گھڑی میں، ہر تکلیف کے لمحات میں کسی کی زبان سے ادا ہونے والا یہ چھوٹا سا جملہ کہ ” فکر مت کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا“انسان کو کتنی تسلی اور حوصلہ عطا کر دیتا ہے۔اس جملے کا ایک ایک حرف سننے والے کو پھولوں کی طرح تروتازہ کردیتا ہے ۔افسوس کہ آج تسلی اور ڈھارس کے یہ مختصر جملے بھی سننے کو نہیں ملتے۔ تکنیکی مسابقت کے اس میکانی دور نے انسانی رشتوں کو اتنا دور کر دیا کہ لوگ خلوص اور اپنائیت کے دو بول سننے کو بھی ترستے ہیں ۔ایک دوسرے کے لئے اپنے منہ سے میٹھے بول بولنے اور ایک دوسرے سے اپنے دل کی بات کرنے والے خال خال ہی رہ گئے ۔ یہی المیہ ہے ہمارے معاشرے کا کہ ہمارے پاس کسی کو دینے کے لئے وقت ہی نہیں۔ کسی کی بات سننے کے لئے دو گھڑیاں نہیں۔ اس مشینی دور نے سب کو اتنا مصروف کر دیا کہ انسانوں کی خوشیاں ادھوری رہ گئیں۔ یہی غم ہیں جو اندر ہی اندرانسان کو تنہا کئے دے رہے ہیں۔ مخلص لوگ بہت کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ آئینہ ہوتے ہیں جن کے اندر ہم اپنی اچھائی اور برائی بخوبی پرکھ سکتے ہیں۔ 
حقیقت یہی ہے کہ آج کے اس پرآشوب دور میں لوگ صرف اپنی غرض کے باعث ہی کسی سے روابط استوار کرتے ہیں ۔ اس کے معاشرتی رتبے، اختیارات ، عہدے اور وسائل کو دیکھ کر، اس کے مطابق ہی اس کوعزت و توقیر دیتے ہیں۔ فطری طور پر انسان اپنے آپ کو عزت و احترام کے لائق سمجھتا ہے اور دوسروں سے بھی یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ احترام والا رویہ روا رکھے گا لیکن افسوس کہ ہم ان ہی کو لائق احترام سمجھتے ہیں جو ہمارے معیار پر پورا اترتے ہیںورنہ کوئی بھی انسان اپنی عزت نفس مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ 
آج کی دنیا میں خلوص جیسے گوہر ،نایاب ہو چکے ہیں جن لوگوں کے اندر ایسے نایاب گوہر موجود ہیں وہ اس قیمتی تجوری کی مانند ہیں جن کے اندر ہماری اچھائیاں ،برائیاں اور خوشیاں سب دفن ہیں۔ ان سے انسان اپنی زندگی کاہر دکھ اور درد بانٹتا ہے ۔یہی ہمارے مخلص اور غمخوار ہوتے ہیں۔ 

شیئر: