کسی نے ایک عارف سے پوچھا کہ نوحؑ کی قوم کیوں تباہ ہوئی؟ عارف نے کہا : اس قوم کی ماں نافرمان تھی ، پوچھا گیا کہ ماں کون بتایا : نوحؑ کی بیوی
رضیہ برکت۔ ریاض
عورت رب کریم کا خوبصورت ترین تحفہ ہے۔ کائنات میں رنگ و نور عورت کے وجود سے ہے۔ اسلام میں عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہر لحاظ سے معزز اور محترم ٹھہری ہے۔ عورت کا فطری تقدس ، پاکیزگی اور اس کی نسوانی حرمت صرف اور صرف اسلام کی مرہون منت ہے۔سورہ النسائ، آیت 34 میں حکم ربانی ہے ” پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں“ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا”بہترین بیوی وہ ہے جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے“ (مسلم)یہ حدیث، اس آیت کی بہترین تفسیر کرتی ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ ” نیک عورت حقیقت میں وہی ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری پر مداومت اور ہمیشگی برتے۔ اللہ اور اس کے رسول کا حق ادا کرنے کے بعد شوہر کے حق سے بڑھ کر کوئی حق نہیں رہ جاتا“نیک عورت سرمایہ ہے۔ قیمتی متاع ہے، دولت کو حفاظت سے رکھا جاتا ہے، دوسروں سے سنبھال کر چھپا یا جاتا ہے ۔ اسلام سے قبل عورت کی کوئی عزت و توقیر نہیں تھی، اسے حقیر سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے عور ت کو نازک آبگینہ قرار دیا ۔ عورت چہرہ¿ انسانیت کا غازہ ہے۔ نیک عورت صرف خوبصورت عورت کا نام نہیں ۔ نیک عورت کا آئیڈیل اُم المومنین حضرت عائشہؓ ، حضرت خدیجہؓ اور بنت رسول حضرت فاطمہؓ ہیں جو اللہ و رسولکے حکم کو اپنے اوپر نافذ کرنے والی تھیں کیونکہ حکم الٰہی ہے کہ” اور اپنے گھروں میں سکونت پذیر رہواور اگلے زمانہ¿ جاہلیت کے بناؤ سنگھار کا اظہار کرتی نہ پھرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو“ (الاحزاب آیت 33
عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے ۔ اس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہئے۔ ایک مرتبہ نبی رحمت کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوکر عرض کرتی ہے کہ یار سول اللہ میں عورتوں کی طرف سے آپ کے پاس قاصد بن کر آئی ہوں(میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ) اللہ تعالیٰ نے جہاد کو مردوں پر فرض کیا ہے، اگر وہ کامیاب لوٹتے ہیں تو اجروثواب پاتے ہیں اور اگر شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ کے یہاں انہیں روزی دی جاتی ہے (مردوں کا یہ مرتبہ ہے) اور ہم عورتوں کا یہ حال ہے کہ ہم بس ان کی نگہداشت کرتی ہیں، ہمیں اس پر کیا اجر ملے گا؟۔ آپ نے فرمایا” تم اپنی تمام ملاقاتی عورتوں سے جاکر کہہ دینا کہ بیوی کا شوہر کی خدمت و اطاعت کرنا اور اس کے حقوق کی رعایت کرنا (اعتراف کرنا) اجر میں مردوں کے مساوی ہوگا لیکن تم میں بہت کم عورتیں ایسی ہوں گی
ایک اور حدیث مبارکہ میںآیا ہے کہ حضرت ابوبکر بزار ،حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضور اکرم سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لوٹ لے گئے، وہ جہاد کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مل سکے؟ آپ نے فرمایا”جو تم میں سے گھر میںبیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی“ مجاہدین اللہ کی راہ میں مصائب و تکالیف برداشت کرتے ہیں ،گھر کے آرام و سکون کو ترک کرکے دن رات یکسو ہوکر جہاد کرتے ہیں۔ ہجرت کرکے وطن سے دور ہوتے ہیں۔ گھر میںٹک کر رہنے والی عورت اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہے۔
ایک اور روایت جو بزار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے نقل کی ہے، نبی پاک کا ارشاد ہے”عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میں ہو“ آج عورت بن ٹھن کر نکلتی ہے اور زیب و زینت دکھاتی ہے۔ چست و عریاں لباس پہنتی ہے۔ مردوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ یہ ممنوع ہے۔رسول کریم نے فرمایا 3 کام جاہلیت کے ہیں ،دوسروں کی نیت پر طعن کرنا، ستاروں کی گردش سے فال لینا اور مُردوں پر نوحہ کرنا۔
عورت گھر کی نگہداشت کرتی ہے ،یہ اعلیٰ ترین عمل ہے۔ نبی کریم سے پوچھا گیا کہ عالی مرتبہ عورتوں کی طرف اشارہ فرمایئے۔ فرمایا قریشی عورتوں کو دیکھو۔ پوچھا گیا ان میںکیا خوبی ہے؟ فرمایا وہ شفیق مائیں ہیں، بچوں کو خوب ہی تربیت دیتی ہیں۔
جنتی عورت رب کریم کے احکامات کی پابندی کرتی ہے، فرمانبردار ہوتی ہے، کسی نے ایک عارف سے پوچھا کہ نوحؑ کی قوم کیوں تباہ ہوئی؟ عارف نے کہا کہ اس قوم کی ماں نافرمان تھی ۔ پوچھا گیا کہ ماں کون ؟ بتایا ، نوحؑ کی بیوی۔
نیک عورت اولاد کے لئے دعاگو رہتی ہے۔ ان کے حال و مستقبل کی فکر کرتی ہے ا ور عارف سے پوچھا گیا کہ حضرت عیسیٰؑ کو گہوارے میں بات کرنے کی توفیق کیسے ملی؟ جواب دیا کہ ان کی ماں مریمؑ کی دعا کی بدولت۔(از: اسلام میں عورت کا مقام)
جنتی عورت کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے اللہ رب العالمین نے کیا اوصاف بیان کئے ہیں، ایک حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ کی سیرت ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ایک مرتبہ حضرت جبریلؑ بنی کریمکے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول،خدیجہؓ ، آپ کے پاس آرہی ہیں، ان کے ساتھ ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا پانی ہے۔ جب وہ آجائیں تو انہیں ان کے پروردگار کی طرف سے اور میری جانب سے سلام کہئے اور انہیں جنت میں ہیرے و جواہرات کے بنے مکان کی بشارت دیجئے جس میں شور و شعب اور رنج و ملال نہ ہوگا
حضرت حصین بن محصنؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری پھوپھی نے بیان کیا کہ ایک دن میں نبی کریم کے پاس گئی، آپنے مجھ سے پوچھا (تم) کون ہو؟ کیا تم شوہر والی ہو؟ تمہارا خاوند ہے؟ میں نے کہا: ہاں! آپنے فرمایا تم اس کیلئے کیسی ہو؟ میں نے جواب دیا اس کی اطاعت اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، سوائے اس کے کہ اس کام سے عاجز ہوں۔ آپ نے فرمایا خوب سوچ لو، کیو کہ وہی تمہارے لئے جنت اور جہنم ہے۔
شوہر کی اطاعت و خدمت فرض ہے۔ آخرت کی زندگی میں کامیابی کا دارومدار شوہر کی خدمت میں مضمر ہے۔ جنتی عورت ہمیشہ شوہر کی تابعدار ہوتی ہے، اس کے آرام و سکون کا خیال رکھتی ہے۔ نیک عورت کو چاہئے کہ اچھائی اور نیکی کے کام میںحصہ لے اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرے۔ اپنے آقا و مالک کا حق ادا کرے کہ قرآن پاک میں حکم ہے کہ تم خیر امت ہو جوسارے انسانوں کیلئے وجود میں لائی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔آل عمران آیت 110