Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمگیر حقیقت:بشریٰ انصاری کا ثانی نہیں

شہزاد اعظم
ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ایک روایت بڑی عجیب ہے کہ جب کوئی شخصیت دنیا سے چلی جاتی ہے تب اس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ:
 ”خدا بخشے بہت ہی خوبیاں تھیں مرنے والے میں“
اس روایت کی تازہ ترین مثال منفرد اور لا ثانی مزاحیہ اداکار، کمپیئر اور نفیس انسان معین اختر کی ہے جن کی زندگی میں انہیں اس قدر نہیں سراہا جا سکاجس کے وہ مستحق تھے مگر ان کے انتقال کے بعد پاکستان میں دنیائے فن کے باسیوں کو احساس ہوا کہ ہم نے تو افسانوی شہرت کا حامل فنکار کھو دیا۔ اب مختلف مقامات، سڑکوں یا پارکوں کو معین اختر سے موسوم کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں، بھلا اس سے مرحوم کو کیا حاصل ہوگا؟کسی نے جیتے جی تواُن کی کما حقہ قدر نہیں کی ، اب اُن کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ”ہا ﺅہو“ یا ان کی یاد میں سیمیناراورمحافل منعقد کرنا چہ معنی دارد؟
”زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور زمین ہر شے کو اپنے مرکز کی جانب کھینچتی ہے“، یہ سب عالمگیر حقائق ہیںجن کو صرف غپی یا پاگل ہی جھٹلا سکتا ہے۔اسی طرح ایک عالمگیر حقیقت یہ بھی ہے کہ بشریٰ انصاری جیسی ہمہ جہت اور ہرفن میں کمال کی حامل اداکارہ و گلوکارہ کابرصغیر پاک و ہند میں کوئی ثانی نہیں۔اس سچائی سے صرف وہی انکار کر سکتا ہے جس نے ”کوّے کو سفید“ کہنے کی ٹھان رکھی ہو۔اگر یہ بات درست نہیں تو کسی دوسری شخصیت کا نام لیجئے جس میں وہ تمام ”گُن“ موجود ہوں جو بشریٰ انصاری میں پائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہو ، ہندوستان ہو یا اردوگو انسانوں کا کوئی دوسرا خطہ، ہر بچہ اور بڑا بشریٰ انصاری کے نام اور کام سے ضرور واقف ہوگا۔یہ فنکارہ آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ٹی وی ناظرین کے قلوب و اذہان پر ”فکاہتی حکمرانی“ کرتی چلی آ رہی ہیں۔اس حکمرانی کے حوالے سے وہ کسی ”آمر“ سے کم نہیں کیونکہ ان کے مقابلے میں نہ تو کبھی حکمرانی کا ”بوجھ“ اپنے کاندھوں پر لینے کا کوئی امیدوار سامنے آیا اور نہ ہی دور دور تک ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے۔
بشریٰ انصاری نے جب اسکول کی بچی کا کردار ادا کیا تو محسوس ہوا کہ وہ واقعی 8ویں جماعت کی سیدھی سادھی اور معصوم طالبہ ہیں ۔ جب انہیں مکار اور چالباز خاتون کا کردار سونپا گیا تو ایسا لگا کہ پاکستان بھر میں ان سے زیادہ چلتر عورت شاید پیدا ہی نہیں ہوئی۔ دادی بنیں تو مانو کہ دل کی گہرائیوں سے حسرت و یاس سے معمور یہ جملہ زبان پر مچلنے لگا کہ ”کاش! بشریٰ انصاری ہماری دادی اور ہم ان کے نواسے ہوتے۔“
اداکاری کے ساتھ ہی انہوں نے مختلف گانوں اور اشتہارات کی ”پیروڈی“ بھی کی تو ہم ہی نہیں بلکہ ناظرین بپی اس امر کی گواہی دیں گے کہ بعض پیروڈیز تو ایسی تھیں کہ اصل گانوں سے زیادہ اچھی تھیں۔ انہوں نے ملکہ ترنم کی زندگی میں ان کے نغمے انہیں کے انداز میں گا کر اپنی ہمہ جہتی کی دھاک بٹھا دی۔ خود ملکہ ترنم نور جہاں نے بھی ان کے فن اور ہو بہو نقل کرنے پر انہیں داد و تحسین سے نوازا۔انہوں نے مسرت نذیر کی نقل کی تو بشریٰ کو دیکھ کر وہ خود حیران رہ گئیں۔ ایسی نابغہ¿ روزگار اداکارہ ہمارے درمیان موجود ہے، دنیائے فن کو چاہئے کہ ان کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرے، ان کی قدر کرے، انہیں وہ مقام دے جس کی وہ مستحق ہیں۔ زندگی اور موت بھی اللہ کریم کے ہاتھ میں ہی ہے، ہماری دعاہے کہ انہیں عمرِ دراز عطا ہو۔کسی کو پتہ نہیں کہ کب اور کس گلی میں اس کی زندگی کی شام ہوجائے گی۔
 

شیئر: