دلیپ کمار کو اگر فلم انڈسٹری میں ’ٹریجڈی کنگ‘ کے خطاب سے نوازا گیا تو اداکارہ مینا کماری کو ’ٹریجڈی کوئن‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ جب جب یہ دونوں فلموں میں ایک ساتھ آئے ان کی ٹریجڈی فلم تو بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوئی لیکن ان کی ہلکی پھلکی مزاحیہ اور رومانس والی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔
آج ہم مینا کماری کو یکم اگست کو ان کے 93ویں جنم دن پر اسی حوالے سے یاد کر رہے ہیں۔
میناکماری یکم اگست 1933 کو بمبئی میں علی بخش اور اقبال بیگم کے گھر پیدا ہوئیں۔ علی بخش کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ جب وہ پیدا ہوئیں تو ان کے والد نے انھیں ایک یتیم خانے کے دروازے پر چھوڑ دیا تھا لیکن پھر دل نہ مانا اور وہ انھیں اٹھا کر گھر لے آئے، یوں ننھی مہ جبیں کا غموں سے پیدائش کے ساتھ ہی پالا پڑ گیا۔
مزید پڑھیں
-
مینا کماری جنہیں باپ یتیم خانے چھوڑ آیا تھاNode ID: 103391
-
مدھو بالا، جو ’دل کے معاملے‘ میں خوش قسمت ثابت نہیں ہوئیںNode ID: 886298
جب وہ محض چار پانچ سال کی تھیں تو انہوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ ان کی ہرگز پسند نہ تھی لیکن وہ بچپن سے ہی اپنے گھر کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرنے والی بنیں۔
جب ہدایتکار وجے بھٹ نے انہیں اپنی فلم ’لیدرفیس‘ میں بطور چائلڈ آرٹسٹ لیا تو انہیں پہلے دن 25 روپے ادا کیے گئے جو کہ شاید ایک مہینے کے لیے ان کے گھر کی کفالت کے لیے کافی تھے۔
ایک بار ایک انٹرویو میں مینا کماری نے کہا کہ انہیں اس بات کو یاد کرکے بہت خوشی اور سکون ملتا ہے کہ انہوں نے انتہائی کم عمری سے ہی اپنے گھر کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی۔
مینا کماری کے والد علی بخش، فلموں سے وابستہ تھے اور والدہ بھی اداکارہ تھیں اس لیے وہ اتنی جلدی فلموں میں قدم رکھ سکیں۔
اگرچہ مینا کماری کی باضابطہ تعلیم نہیں ہوئی لیکن انہوں نے اردو زبان میں خاصی شاعری کی ہے۔ ان کی شاعری کو بعد میں اردو کے معروف فلمساز اور نغمہ نگار گلزار نے شائع کرایا۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی جھولی میں کامیابی اور مقبولیت دل ٹوٹنے اور شراب نوشی کے ساتھ آئی، اور بچپن سینما کی روشنی میں کہیں کھو گیا۔
مینا کماری کو ان کی فلم ’پاکیزہ‘، ’صاحب بی بی اور غلام‘، ’آرتی‘، ’بیجو باورا‘، ’پرینیتا‘، ’میرے اپنے‘، ’کوہ نور‘، ’یہودی‘ وغیرہ کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

معروف صحافی اور تاریخ نویس ونود مہتہ نے مینا کماری کی سوانح لکھی ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ جن سے انہوں نے محبت کی ان کی جانب سے انہیں ناقدری ملی۔
فلم ناقدین کے مطابق مینا کماری کی صلاحیتیں ان کی اداکاری سے کئی گنا زیادہ تھیں، انہوں نے نہ صرف معروف فلم ساز اور ہدایتکار کمال امروہی کے ڈریم پراجیکٹ ’پاکیزہ‘ میں کام کیا بلکہ اس فلم کے لیے ملبوسات بھی ڈیزائن کیے تھے۔ یہی ملبوسات سنجے لیلا بھنسالی اور مظفر علی جیسے فلم سازوں کو متاثر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ مینا کماری کو شعر و ادب سے بھی گہری دلچسپی اور وابستگی تھی۔
ونود مہتا اپنی کتاب ’مینا کماری میں لکھتے ہیں کہ ’بیچاری وہ لفظ ہے جس سے ان کی زندگی وابستہ ہے۔‘
مینا کماری کے الفاظ اس کی عکاسی کرتے ہیں: ’پہلے دن جب میں کام پر نکلی تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں بچپن کی عام خوشیوں کو الوداع کہہ رہی ہوں۔ میں نے سوچا کہ میں کچھ دن کے لیے سٹوڈیو جاؤں گی اور پھر سکول جاؤں گی، کچھ چیزیں سیکھوں گی، اور دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود کروں گی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‘
کہتے ہیں کہ مینا کماری کا دل بہت خوبصورت تھا۔ وہ کبھی کسی کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ انہوں نے بہت سے نئے فنکاروں کو سٹار بنانے میں مدد کی جن میں راجیندر کمار اور دھرمیندر کا نام سرفہرست ہے۔
مینا کماری نے دلیپ کمار کے ساتھ چار فلمیں کیں جن میں ’فٹ پاتھ‘ کے علاوہ ساری کامیاب رہیں۔ ’فٹ پاتھ‘ میں ٹریجڈی کنگ اور ٹریجڈی کوئن المیہ کردار ادا کر رہے تھے جبکہ بمل رائے کی فلم ’یہودی‘ تمام خدشات کے باوجود باکس آفس پر کامیاب ثابت ہوئی۔

ایک بار جب مینا کماری سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہم دونوں ہلکی پھلکی مزاحیہ فلموں میں اچھے لگتے ہیں۔‘
ٹائمز نیوز کے مطابق مینا کماری نے ایک بار لکھا تھا کہ کس طرح فلم آزاد کی شوٹنگ کے دوران، ایک حقیقی ٹریجڈی ہوتے ہوتے رہ گئی اور دلیپ کمار نے انہیں بچا لیا۔
انہوں نے لکھا کہ ’کوئمبٹور میں ہم فلم آزاد کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ ایک سین تھا جس میں دلیپ کمار آزاد ڈاکو کے بھیس میں تھے اور میں ایک رسے ذریعے فرار ہو رہی تھی۔ دو اونچی چوٹیوں کو جوڑنے والے روپ وے مضبوط تاروں سے جڑے تھے اور ان کے ساتھ ایک ٹرالی لگی ہوئی تھی۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت صرف مسافروں کی نقل و حمل کے لیے روپ وے کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ہمارے سین کے لیے دونوں ٹرالیوں کو ایک کیبل پر رکھا گیا۔ ایک ٹرالی پر میں اور دلیپ صاحب تھے اور دوسری ٹرالی پر کیمرہ مین اور ان کے اسسٹنٹ۔ جب ہدایتکار نے ٹرالی کو چلانے کا کہا تو میں نے دیکھا کہ کیمرہ مین بہت گھبرایا ہوا ہے اور وہ ہیلپ ہیلپ چیخ رہا تھا۔ دونوں ٹرالیوں کے وزن نے کیبل کو بہت نیچے کر دیا تھا اور ہماری ٹرالی سیدھی پہاڑی کی چوٹی کی طرف جا رہی تھی، میں نے اپنا آپا کھو دیا اور چیخ پڑی۔ خوش قسمتی سے، آپریٹر نے دیکھا کہ ہم خطرے میں ہیں اور اس نے ٹرالی روک دی۔‘
مینا کماری نے کہا کہ حقیقتا دلیپ کمار نے انہیں سنبھالا اور وہاں سے بچا کر نکالا۔
اسی طرح یہودی فلم در اصل رومن کرداروں پر منبی فلم ہے جسے آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے ’یہودی کی لڑکی‘ پر بنایا گيا۔ اس فلم میں دونوں کی مزاحیہ کمیسٹری خوب جمی ہے لیکن فلم میں ٹریجڈی کے بہت سے سیکوئنس ہیں۔ اس فلم کا گیت ’یہ میرا دیوانہ پن ہے‘ بہت مقبول ہوا۔
جبکہ مینا کماری اور دلیپ کمار کی فلم کوہ نور کلاسک فلموں میں شمار ہوتی ہے اور اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ لیکن مینا کماری کا اصل کارنامہ ان کی فلم پاکیزہ ہے جو کمال امروہی اور مینا کماری کے جھگڑے اور دوسری وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوتی رہی اور 16 سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔
اس فلم کے لیے مینا کماری نے تمام تر جھگڑے کے باوجود اپنے شوہر کمال امروہی کا ساتھ دیا اور بغیر کسی معاوضے کے کام کیا یہاں تک کہ اس کے ملبوسات بھی ڈیزائن کیے۔

یہ فلم اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلم رہی اور اس کا شمار کلاسک فلموں میں ہوتا ہے۔ مینا کماری کی محبت کی داستان بھی بہت مشہور ہے۔ ایک ایکسیڈنٹ میں جب ان کے ہاتھوں میں چوٹ آئی تو کمال امروہی ان سے ملنے مسلسل ہسپتال آتے رہے اور یہیں سے ان کی محبت پروان چڑھی۔
مینا کماری کی بہن کے مطابق انہوں نے 19 سال کی عمر میں 14 فروری 1952 کو چھپ کر نکاح کر لیا۔ پھر ایک بیماری کی وجہ سے انہیں شراب کی لت لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شادی خراب ہو گئی اور ان کی صحت بھی خراب رہنے لگی۔
اس دوران دھرمیندر اور بعد میں گلزار سے ان کے معاشقے کی باتیں بھی گردش کرتی رہیں۔ لیکن جس طرح سے وہ 1954 میں شروع ہونے والی فلم پاکيزہ کو مکمل کرنے کے لیے کمر کس کر اٹھیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شادی میں تلخی کے باوجود وہ اپنے کام سے محبت کرتی تھیں۔
فلم پاکیزہ‘ کے بنانے کی کہانی کبھی اور لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے اس فلم نے ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیے، لیکن وہ اس فلم کی ریلیز کے تقریبا ڈیڑھ ماہ بعد 31 مارچ 1972 کو زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا ہو کر محض 38 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
ان کی موت کے بعد 12ویں بار انہیں پاکیزہ کے لیے فلم فیئر کے بہترین ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا لیکن جب انہیں یہ ایوارڈ نہیں دیا گيا تو اداکار پران نے احتجاجاً اپنے بہترین معاون اداکار ایوارڈ کو لینے سے انکار کر دیا۔
اس سے قبل انہیں بیجوباورا، پرینیتا، صاحب بی بی اور غلام اور کاجل کے لیے بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا تھا۔
پران کا ایوارڈ لینے سے انکار اس بات کی گواہی ہے کہ لوگ ان کے کتنے گرویدہ تھے۔
