Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرن دا شوق

جاوید اقبال
گزشتہ ستمبر میں ایک المیے کا عشرہ منانا پڑا۔ بات ذرا کھول کر کہتا ہوں کہ اس واقعے کو میرے علاوہ تفصیل سے او ر کوئی بیان بھی نہیں کر سکتا۔ 2006ءکا نوبل انعام بنگلہ دیش کے پروفیسر محمد یونس کودیاگیا تھا۔ امن کمیٹی نے محمد یونس کے نام کا اعلان کیا تھا کہ اس نے مائیکرو فنانسنگ ناداروں میں متعارف کرا کے معاشرتی انقلاب پیدا کر دیاتھا۔ اقتصادی دنیا میں کہرام مچ گیا۔ محمد یونس نے بانس کی چھال اور ٹوکریاں اور کرسیاں بُننے والی غریب عورتوںکو اپنی جیب سے بہت کم شرح سود پر قرضے فراہم کئے اور یوں گرامین بینک کی صورت میں سرمایہ کاری کو ایک نیا روپ دےدیا۔ انعام کی وصولی کے بعد اس کی شہرت کو پر لگے، دنیا کے تقریباً ہر ملک سے اسے لیکچر دینے کےلئے بلایا جانے لگا۔ 
یوں ہی تھا جب ستمبر2007ءمیں انہیں ریاض مدعو کیاگیا۔ انتہائی شاندار استقبال تھا۔ خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے محمد یونس کو مملکت کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’شاہ عبدالعزیز میڈل “سے نوازا۔ عرب گلف فنڈ نے انہیں اپنی مشاورتی کونسل کی رکنیت دی جبکہ جامعہ ملک سعود نے ان کے نام پر ایک ریسرچ چیئر قائم کردی۔ علاوہ ازیں جامعہ نے اپنے شعبہ اقتصادیات میں انہیں اعزازی پروفیسر رکھنے کے علاوہ اعلان کیا کہ اس تحقیقی چیئر کے نام پر 30بنگلہ دیشی طلباءکو اقتصادیات میں اعلیٰ تعلیم کےلئے وظائف بھی دیئے جائیں گے۔ یہ طلباءجامعہ المک سعود میں اپنا تحقیقی کام جاری رکھیں گے۔ یہ ایک فقید المثال تقریب تھی ،تب میرے ذہن کے کسی گوشے میں رشک اور حسد دونوں نے سراٹھایا۔ 
میں جامعہ کے کلیتہ اللغات و الترجمہ میں انگریزی کی تدریس کرتا تھا اور ڈاکٹر فیصل بن مھنا اباالخیل میرے ڈین تھے جو پاکستان کو بے حد پسند کرتے تھے۔ ایک بار انہو ںنے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو عالم اسلام کا ایک درخشاں ستارہ سمجھتے ہیں تو محمد یونس کی تقریب کے اختتام پر میں سیدھا اُن کے دفتر گیا اور شکوہ کیا کہ جامعہ الملک سعود نے محمد یونس کے نام پر تو ریسرچ چیئر قائم کرنے کے علاوہ 30بنگلہ دیشی طلباءکو اعلیٰ تعلیم کےلئے وظائف بھی مہیا کرنے کی پیشکش کر دی لیکن حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ اقبال کا نام کہیں نہیں لیا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر فیصل بات سمجھ گئے اور وعدہ کیا کہ وہ مدیر الجامعہ سے اس سلسلے میں بات کریں گے۔ کوئی ایک ہفتے کے بعد مجھے انہو ںنے اپنے دفتر بلا کر خوشخبری دی کہ ان کے اصرار پر مدیر جامعہ نے اقبال چیئر کے نام سے ایک ثقافتی تحقیقی شعبہ قائم کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے او راس کے علاوہ 50پاکستانی طلباءکو طب ، انجینیئرنگ اورآئی ٹی میں اعلیٰ تعلیم کےلئے وظائف دینا بھی منظور کر لیا۔ شرط صرف یہ تھی کہ اقبال چیئر کےلئے پروفیسر حکومت پاکستان نے وہاں سے مامور کرنا تھا اور اس کا مشاہرہ بھی اسلام آباد سے ہی آنا تھاالبتہ پروفیسر کو 600ریال ماہوار ٹرانسپورٹ الاﺅنس اور بلامعاوضہ رہائش جامعہ مہیا کرتی۔ 50طلباءکے تعلیمی مصارف اور رہائش جامعہ کے ذمہ ہوتے۔ شرائط انتہائی معقول تھیں۔ ایک آدھ پروفیسر کی تبدیلی کر کے اسے ریاض بھیج دیا جاتا جو اقبال چیئر کی ذمہ داری سنبھال کر تحقیقی کام کرتا او ر50طلباءوظائف پر جامعہ الملک سعود پہنچ جاتے۔
میں نے وقت ضائع کئے بغیر اس وقت کے پاکستانی سفیر ایڈمرل(ریٹائرڈ) شاہد کریم اللہ سے رابطہ کیا اور انہیں سارا ماجرا کہہ سنایا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر میں نے جامعی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ڈین کے دفتر میں دونوں کی ملاقات کرائی جس میں ہر دوطرف سے شرائط پر زبانی رضامندی کا اظہار ہو گیا۔ بعد ازاں شاہد کریم اللہ نے ایک خط ڈین کو شکریہ کا لکھا اور ایک اور خط اسلام آباد میں وزارت تعلیم کو ارسال کیا۔ اس میں انہوں نے معاملے کی تفصیل دینے کے بعد یہ درخواست کی تھی کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور اردو کے استاد کا فوراً تقرر کیا جائے۔
ڈین فیصل المھنا اباالخیل بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ مدیر الجامعہ نے اقبال چیئر کے قیام کی رسمی منظوری بھی دےدی۔ انتظار ! انتظار! انتظار ! دن ، ہفتے گزرتے گئے۔ سفیر پاکستان نے متعدد مرتبہ وزارت تعلیم سے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ کیا اور وہاں اہلکاروں کو معاملہ جلد نمٹانے کی درخواست کرتے رہے۔ جواب ملتا کہ سفارتخانے کا ارسال کردہ خط ابھی نہیں ملا ۔ تقریباً 4ماہ گزر گئے، پھر مارچ کے اواخر میں مَیں خود صرف اس قضیے کے حل کےلئے اسلام آباد گیا۔ ایک پڑھے لکھے نوجوان اُن دنوں وزیر تعلیم تھے۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ تھی۔ میں نے وزیر کو ساری کہانی سنائی اور ملتمس ہوا کہ پروفیسر کو فوراً ریاض پہنچایا جائے۔ انہوں نے انتہائی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا اور معاملہ اپنے سیکریٹری کے حوالے کر دیا۔ پہلے تو مجھے اطلاع دی گئی کہ سفارتخانے کا کوئی خط وہاں موصول نہیں ہوا ۔ میرے اصرار پر تلاش کا آغاز ہوا تو کہیں کسی ڈھیر کے نیچے دبا شاہد کریم اللہ کالکھا خط برآمد ہو گیا۔ پھر سیکریٹری معترض ہوا کہ وزارت سے منظوری کے بغیر کیسے سفیر پاکستان کسی طرح کے معاملات طے کر سکتے ہیں۔ وزیر موصوف بڑے لاتعلق انداز میں خاموش بیٹھے رہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے وزیر کو اتنا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرے۔ وزیر کے دفتر میں متعدد دوسرے سائل بھی بیٹھے تھے اور وہاں حلقے کے رائے دہندگان کے پولیس ، کچہری کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جا رہی تھی۔ مجھ پر واضح کردیا گیا کہ مناسب وقت پر معاملہ زیر غور لایاجائےگا۔ ایک بے نوا، بے وقعت خط کی فائل مَیں سیکریٹری کی میز پر چھوڑ کر ریاض پلٹ آیا اور ایڈمرل(ر ) شاہدکریم اللہ کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ پھر انتظار شدید تر ہوتا گیا۔
علامہ اقبال چیئر کے قیام کی منظوری مل چکی تھی لیکن ہمارے ہاں وطن کی سوچ مفقود تھی۔ جون کے اواخر میں ڈین فیصل المھنا اباالخیل کو کینیڈا میں سعودی سفارتخانے میں کلچرل اتاشی مامور کر دیا گیا اور وہ ریاض چھوڑ گئے۔ اس سے شاید 2ماہ قبل انتہائی تعلیم یافتہ وزیر موصوف کی سیاسی جماعت نے گیلانی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی او روہ گھر بیٹھ رہے۔ 
ً ان کا ایک حکم، ان کے دست راست کی ڈالی ایک گُھگھی فائل میں تحریر گزارش میں اقرار کی روشنی بھر دیتی.... جامعہ الملک سعود کی فضاﺅں میں بانگ درا، بال جبریل کا پیغام گونجتا ، 50بچے اپنی راہوں کو کھرا ، پُرنور کرتے! ہم بھی بڑے عجیب بے حس لوگ ہیں یارو! 
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
******
 

شیئر: