Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اعتراف

ریکس ٹلرسن ، ہنری کسنجر سے زیادہ دیدہ ور ہیں
 جاوید اقبال
پرسوں مجھے ہندوستانی وزیرخارجہ شریمتی سشما سوراج کے چہرے پر ناامیدی کے تاریک سائے دیکھ کر ایک گونہ مسرت کا احساس ہوا۔ وہ نئی دہلی میں امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کے ساتھ کھڑی تھیں اور ان کے امریکی مہمان ایک باہمی ملاقات کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، تو جب ریکس ٹلرسن نے اعلان کیا کہ امریکہ افغان مسئلے  کا حل پاکستان کی مدد سے تلاش کرنا چاہتا ہے تو شریمتی سشما سوراج کا عموماً ہنستا مسکراتا پر امید چہرہ یاس و ناامیدی کی تصویر تھا اور مجھے اس لمحے ڈونالڈ ٹرمپ کے وزیرخارجہ تقریباً 5دہائیاں قبل کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے سلامتی امور کے مشیر ہنری کسنجر سے زیادہ حقیقت پسند اور جہاندیدہ لگے۔
ٹلرسن نے بڑی پتے کی بات کی ہے۔ کوئی بھی معاملہ فہم انسان بقائمی ہوش و حواس خمسہ اس پاکستان کو افغانستان سے لاتعلق نہیں رکھ سکتاجس نے اپنے 57ہزار جگرگوشوں کی قربانی دینے کے علاوہ 120ارب ڈالر کا خسارہ اپنی اقتصادمیں برداشت کرتے ہوئے اپنے بھائی افغانستان کیلئے دریو زہ گر بننا بھی قبول کر لیا ہے۔ سشما سوراج کا دیس تو افغانستان پر سوویت اتحاد کی جارحیت کے وقت لیونڈبرزنیف کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اس سے دوستی نبھا رہا تھا جبکہ پاکستان اپنی خاک پر 35لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دیے سوویت اتحاد کے " ریچھ جپھے" سے کابل کو آزاد کرانے میں مجاہدین کے شانہ بشانہ تھا۔ آج بھی اسی جنگ کے سائے ہمارے  شہروں اور قصبوں کو خون سے نہلا رہے ہیں۔ ہندوستانی وزیرخارجہ صرف یہی بتا دیں کہ افغانستان کی ماسکو سے آزادی میں کتنے ہندوستانی فوجی مجاہدین کی مدد کیلئے آگے آئے تھے؟ ریکس ٹلرسن بلا شبہ ہنری کسنجر سے بڑے سفارتکار ہیں۔
جب کسنجر نے ویت نام کے میدان جنگ سے امریکہ کو نکالا تھا تو 58ہزار 200امریکی فوجی ویت نام کے نہتے ویت کانگ کے ہاتھوں جان گنوا چکے تھے اور  دنیا کی ایک عظیم سپرپاور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ہر شہر کی ہر شاہراہ پر شہری اس جنگ کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ 20سالہ اس طویل جنگ میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی یادمیں واشنگٹن  میں ایک یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ 13نومبر 1982ء کواس کی نقاب کشائی کی گئی تو زائرین نے اس پر کھدے 58ہزار 195نام شمار کئے۔ بنگلور ، ہندوستان سے منگوائے گئے خصوصی پتھر سے تعمیر کی گئی اس دیوار کی لمبائی تقریباً 247فٹ ہے جبکہ اس کی تعمیر پر 90لاکھ ڈالر صرف ہوئے تھے۔ جنگ میں کام آنے والے فوجیوں کے لواحقین اور اقرباء ہر برس 30اپریل کو دیوار پر جمع ہوتے ہیں اور نمناک آنکھوں سے اس طویل یادگار پر کندہ رفتگان کے ناموں پر اپنی لرزتی انگلیاں پھیرتے ان سے افسردہ سرگوشیاں کرتے ہیں۔
امریکی شہریوں کے لئے ویت نام میموریل ایک نشان گریہ ہو گی۔ اپنے رفتگان کی نشان  عظمت ہوگی۔ لیکن باہر کی دنیا کے لئے یہ یادگار اس تلخ اور افسوسناک حقیقت کی غماز ہے کہ کبھی وقت تھا کہ سپر پاور امریکہ کو بے صدا، بے وسیلہ ویت نام نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ہند چینی کے جنگلوں میں تباہ  کن بمباری کرنے اور تباہ کن توپوں سے گولہ باری کرنے کے باوجود امریکہ ہزیمت سے دوچار ہوا تھا اور 30اپریل 1975ء کو جب آخری امریکی فوجی سفارتخانے سے پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹر میں سوار ہو رہے تھے تو اپنی  بندوقوں کے دستوں سے ان کے ہمراہ ویت کانگ سے اپنی جانیں بچانے والے جنوبی ویت نامیوں کو مسلسل ماررہے تھے۔ انہیں ہیلی کاپٹر سے دور کر رہے تھے۔ 
تو جب نوشتہ دیوار برسوں پہلے سامنے آچکا تھا اور ہوچی منہ کے ویت کانگ گوریلے جنگلوں میں امریکی فوجیوں کا صفایا کر رہے تھے تو امیریکی مشیر برائے قومی سلامتی شمالی ویت نام کے وزیر خارجہ لے ڈک تھو سے مذاکرات کو طول دے رہا تھا۔ویت نام میموریل کی دیوار پر 58ہزار 195مرنے والے امریکیوں کے نام! تو پھر ریکس ٹلرسن زیادہ بڑا زمانہ شناس ہوا ناں ہنری کسنجر سے !! اعداد و شمار کے مطابق اب تک افغانستان میں 2ہزار 386امریکی جان گنوا چکے ہیں اور 20ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ ان مجروحین میں سے اکثر معذور ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ 
افغانستان میں مختلف تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے 1173امریکی ٹھیکیداروں کے نام بھی مرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ دوسری طرف 92ہزار افغانی شہری ان 17برسوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں اور یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جنگ نے افغان شہری زندگی کو تخت وتاراج کر دیا ہے۔ ریکس ٹلرسن نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ اگر امریکہ فوراً افغانستان سے نہ نکلا تو یہ ملک اس کے لئے ایک اور ویت نام بن جائے گا۔ 17برس ہونے کو آئے 2001ء سے آج تک  واشنگٹن کی زمینی فوج کی افغانستان میں وہی صورتحال ہے جو روز اول تھی۔
امریکی وزیرخارجہ کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ پاکستان کی شمولیت اور رہنمائی کے بغیر کابل میں خود کش دھماکے نہیں رکیں گے۔ امن مذاکرات آگے نہیں بڑھیں گے او رافغانستان کے کوہسار ہند چینی کے جنگلوں سے بڑھ کر کرہ ارض کی اکلوتی سپر پاور کو اس کی بے چارگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔ 
مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹلرسن نے وہ نہ کہا جو سشما سوراج ان سے کہلانا چاہتی تھیں۔ ٹلرسن نے پاکستان پر کوئی الزام تراشی نہ کی۔ اسلام آباد پر دہشت گردی کی سرپرستی کا اتہام نہ لگایا۔ جب انہوں نے اعلان کیا کہ افغانستان کے قضیے کا حل پاکستان کی مدد سے تلاش کیا جائے گا توان کے ہمراہ کھڑی ہندوستانی وزیرخارجہ اداسی کا مجسمہ بن گئی تھیں۔ میری شریمتی سے ایک گزارش ہے کہ وہ یہ حقیقت فراموش نہ کریں کہ ہر جنگ کے کچھ تزویراتی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ ویت نام کا پڑوسی چین تھا اور وہاں امریکہ شکستہ پا ہوا۔ آج چین ایک سپر پاور ہے اور افغانستان کا ہمسایہ ہے اور سی پیک تو اب اس کے آئین کا حصہ بن چکا ہے۔ تو امریکہ؟ 
ریکس ٹلرسن ہنری کسنجر سے بڑے دیدہ ور ہیں۔ ہندوستان افغانستان میں گھس بیٹھیا  بننے کی بجائے اپنے دیش میں جاری درجنوں علیحدگی پسند تحریکوں کا مداوا کرے۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں