بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہا کہ انڈیا مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعے میں کسی بھی طرح شامل نہ ہرنے کی راہ پر گامزن ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ انڈیا کی خاموشی کے خطے پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ایران پر اسرائیلی حملے 13 جون کو اس وقت شروع ہوئے جب اسرائیل نے ایک درجن سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا۔
مزید پڑھیں
ان حملوں میں اسرائیلی فوج نے جن اہم جگہوں کو نشانہ بنایا اُن میں ایران کی جوہری تنصیبات کے علاوہ فوجی حکام اور سائنس دانوں کی رہائش گاہیں شامل تھیں۔
اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اِن حملوں کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہے۔
ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف بیلسٹک میزائلوں سے جوابی حملے کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔
ایران پر اسرائیلی حملوں میں مبینہ طور پر کم سے کم 639 افراد ہلاک جبکہ 1329 زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی میزائلوں کے حملوں میں اسرائیل میں 24 افراد مارے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
انڈیا کی جانب سے ایران کے خلاف اسرائیل کے ابتدائی حملوں کی تاحال مذمت نہیں کی گئی جیسا کہ دیگر ایشیائی ممالک جیسے چین، جاپان، پاکستان اور انڈونیشیا کر چُکے ہیں۔
10 رُکنی شنگھائی تعاون تنظیم میں انڈیا وہ واحد ملک ہے جس نے ایس سی او کی جانب سے ایران پر اسرائیل کے فوجی حملوں کے خلاف جاری کیے گئے مذمتی بیان کی توثیق نہیں کی۔
واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک سیاسی اور سکیورٹی ادارہ ہے جس میں چین، روس، انڈیا، پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔
ایک بیان میں انڈین وزارتِ خارجہ نے ’فریقین پر زور دیا کہ وہ کشیدگی میں اضافہ کرنے والے اقدامات سے گریز کریں‘ اور بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے ’تناؤ کم کرنے کی کوشش کریں۔‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ’انڈیا کے دونوں ممالک کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات میں بطور سفیر خدمات انجام دینے والے سابق انڈین سفارت کار تلمیز احمد کے مطابق ’یہ ایک روایتی اور عام سا بیان ہے جو صرف ریکارڈ کے لیے دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انڈیا علاقائی سفارت کاری سے متعلق سنجیدہ معاملات میں شمولیت کی دلچسپی نہیں رکھتا۔ انڈیا ایسے طریقوں پر عمل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا جس سے ہم سلامتی اور استحکام کو فروغ دے سکیں۔‘
’تاریخی طور پر مغربی ایشیائی ممالک جس میں مشرق وسطیٰ بھی شامل ہے کے ساتھ انڈیا کے تعلقات وسیع تر علاقائی نقطہ نظر کے بجائے انفرادی، لین دین کے معاملات پر مرکوز رہے ہیں۔‘
تلمیز احمد نے مزید کہا کہ ’ہم نے اسرائیل ایران تنازعے سے متعلق عدم شمولیت کا موقف اختیار کیا ہے (لیکن) اسرائیل نے جو تنازع شروع کیا ہے اس کے خطے پر ممکنہ طور پر خوفناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، انڈیا کو اس بارے میں بہت فِکرمند ہونا چاہیے۔‘
سابق سفارت کار کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا کے لیے اس تنازعے سے لاتعلق رہنے کا کوئی جواز نہیں جس کی آگ ہمارے پڑوس میں بھڑک رہی ہے۔‘
واضح رہے کہ انڈیا اسرائیل سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک ہے اور اسرائیل انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’انڈیا نے گذشتہ دہائی کے دوران اسرائیل سے 2 ارب 90 کروڑ ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان درآمد کیا ہے۔‘

انڈیا کے ایران میں سٹریٹجک مفادات بھی ہیں اور اس نے ایرانی بندرگاہ چابہار کے ترقیاتی منصوبے میں تقریباً 37 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
انڈیا کی جانب سے اس سرمایہ کاری کا مقصد افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط کو بڑھانا ہے۔
اس کے علاوہ ایران میں 10 ہزار سے زائد انڈین شہری مقیم ہیں، جن میں اکثریت طلبہ کی ہے۔ گذشتہ ہفتے ایران پر اسرائیلی حملے شروع ہونے کے بعد سے انڈیا نے انہیں وہاں سے باحفاظت نکالنے کو ترجیح دی ہے۔
نئی دہلی میں مقیم خارجہ پالیسی کے سکالر اور محقق این سائی بالاجی کے مطابق ’خطے میں امن انڈیا کے سٹریٹجک مفاد میں ہونا چاہیے، کیونکہ مغربی ایشیا میں 90 لاکھ انڈینز ملازمت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’نہ صرف یہ کہ یہ (90 لاکھ) انڈیا ترسیلاتِ زر کی مد میں اربوں ڈالر اپنے ملک بھجواتے ہیں (بلکہ) انڈیا کی توانائی کی ضروریات بھی مغربی ایشیا سے پوری ہوتی ہیں۔‘
’ایران کے ساتھ کوئی بھی تنازع یا مغربی ایشیا میں کوئی تنازع نہ صرف انڈیا کی ترسیلاتِ زر کی روانی کو متاثر کرے گا بلکہ اس کے لیے توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انڈین حکومت اسرائیل کی جارحیت پر تنقید نہ کر کے واضح طور پر ایک فریق بن رہی ہے۔‘
