Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ قومی اداروں کی ریاست !سعودی اخبارکا کالم

سعودی اخبار میں امریکہ قومی اداروں کی ریاست کے حوالے سے کالم نذر قارئین ہے:
امریکہ قومی اداروں کی ریاست؟
ڈاکٹر احمد الفراج۔ الجزیرہ
قارئین اکثر و بیشتر مجھ سے یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ ”کیا امریکہ قومی اداروں والی ریاست ہے؟ آپ ہمیشہ یہ بات کہتے اور لکھتے رہتے ہیں کہ امریکہ قومی اداروں والی ریاست ہے۔ آپ کا یہ دعویٰ مشرق وسطیٰ سے متعلق سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی پالیسی کے تناظر میں شک کے دائرے میں آرہا ہے۔ انہوں نے امریکہ کے تاریخی اور طاقتور حلیف سعودی عرب کے حساب پر ایران کیساتھ تعلقات قائم کرکے آپ کے اس دعوے کومشکوک بنادیا ہے کہ امریکہ اداروں کی مالک ریاست ہے۔ اگر آپ کی بات درست ہوتی تو سابق صدر اوبامہ مملکت کے حساب پر ایران کیساتھ تعلقات استوار نہ کرتے اور پھر موجودہ امریکی صدر ٹرمپ انکے اسٹراٹیجک انحراف کی اصلاح نہ کرتے۔ قارئین کا یہ سوال معقول ہے اسی لئے تفصیل طلب بھی ہے۔
جی ہاں امریکہ قومی اداروں والی ریاست تھاا ور ہے۔ ایران 1979ءسے امریکہ میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت کی نظر میں ملک کا تاریخی حریف شمار کیا جاتا رہا ہے۔ اوبامہ کے دور میں بھی یہی موقف رہا تاہم ہر صدر یا ہر حکومت کا کسی بھی مسئلے سے متعلق پالیسیوں کی بابت اپنا ایک تصور ہوتا ہے۔ مثلاً بش سینیئر اور بش جونیئر کو ہی لے لیں، دونوں کی پالیسی ایک تھی لیکن کئی معاملات میں دونوں کا طریقہ کار مختلف تھا۔ آگے چل کر ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے حوالے سے سخت پالیسی اختیار کی۔ اوبامہ ایران کی بابت نرم پالیسی پر گامزن تھے۔ بائیں بازو کے ڈیموکریٹک صدر سے اسکے سوا کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ علاوہ ازیں اوبامہ دانشور صدر اور دانشور سیاستدان تھے۔ وہ زمینی حقائق کو نظر اندازکرکے نظریات پر زیادہ انحصار کرتے تھے۔انہوں نے ایٹمی معاہدے کے ذریعے ایران کو اپنانے کی کوشش کی۔ اوبامہ اپنے تاریخی ترکے کے حوالے سے بھی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے تھے۔اوبامہ عرب بہار منصوبے میں فیل ہوچکے تھے۔ انکی انتظامیہ نے مختلف عرب ممالک میں عرب بہار کی حمایت کی تھی۔ ناکامی کے بعد تاریخی کارکردگی کے حوالے سے انکی امیدوں کا محور ایٹمی معاہدہ ہی رہ گیا تھا۔ شام میں بشار الاسد کے نظام حکومت کی بابت بھی انکا موقف نرم ہی تھا۔
اس پیش منظر سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ایران سے متعلق ہر امریکی حکومت کی پالیسی ایک ہی رہی۔ کسی بھی امریکی حکومت نے ایران کو دوست ملک نہیں سمجھا۔ بش اور ٹرمپ کی سخت پالیسیوں کو لے لیجئے یااوبامہ کی نرم پالیسی کو مدنظر رکھیں دونوں میں سے ہر ایک ایران کے مخالف تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایران سے نمٹنے کا طریقہ¿ کار دونوں کا مختلف رہا ہے۔اوبامہ نے ایٹمی معاہدے کےلئے ہونے والے مذاکرات کے دوران اور معاہدہ ہونے کے بعد یہ بات پوری قوت سے کہی کہ ایران کے حوالے سے تمام آپشن کھلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی ایران کو دوست ملک نہیں کہا۔ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ ایران مستقبل میں امریکہ کا دوست ہوگا لہذا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ امریکہ اداروں والی ریاست ہے تو اس سے ہمارا مقصد یہی ہوتا ہے۔
ممکن ہے کوئی بھی شخص ہمارے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ دے کہ امریکہ اداروں والی ریاست نہیں ۔ ممکن تھا کہ اوبامہ ایران کےساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لے آتے اور سفراءکا تبادلہ کرلیتے ،کیا ایسی صور ت میں بھی یہ دعویٰ درست ہوتا کہ امریکہ قومی اداروں والی ریاست ہے؟
اسی تناظر میں ہمیں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے موجودہ تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے مملکت کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ انکی نجی پالیسی کا عکس نہیں بلکہ اداروں کا فیصلہ ہے۔ مملکت کی حریف اسلامی تنظیموں کے نمائندے اور عرب قوم پرست نیز ان کے دائرے میں گھومنے والے لوگ یہی شور مچا رہے ہیں کہ ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ گہرے تعلقات کی جو پالیسی اختیار کی ہے وہ انکی نجی پالیسی ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ سعودی عرب اہم ملک ہے اور مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی میں سنگ بنیاد کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ سعودی عرب کی بعض پالیسیوں کی بابت ٹرمپ اور انکی حکومت کے بعض عہدیداروں کا نقطہ¿ نظر ایک جیسا نہیں۔ امریکی حکومتوں کے حوالے سے یہ فطری امر ہے۔ کئی ڈیموکریٹک سیاستدان ایران کی بابت اوبامہ کی نرم پالیسیوں کے مخالف رہے اسکے باوجود ایٹمی معاہدہ ہوا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ امریکہ اداروں والی ریاست ہے تاہم مختلف امور و مسائل کی بابت ہر صدر کا اپنا طریقہ¿ کار ہوتا ہے البتہ یہ طریقہ کار ریاستی اداروں کے خطِ مستقیم سے منحرف نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: