انتہا پسند علماء المسلمین پر پابندی..... عبدالرحمان راشد
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الاوسط میں عبدالرحمان راشد کا کالم شائع ہوا جس کا ترجمہ یہاں قارئین کے لئے پیش کیا جارہا ہے
انتہا پسند علماءالمسلمین پر پابندی
عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب ، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 11انتہا پسند شخصیتوں او ر2انتہا پسند اسلامی تنظیموں کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ”الاتحاد العالمی لعلماءالمسلمین“ کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کافی تاخیر سے کیا گیا۔ الاخوان المسلمون اس جماعت کے بانی ہیں اور قطر اسکا سرپرست ہے۔ اسی طرح ”المجلس الاسلامی العالمی “ بھی پہلی جماعت کی جڑواں بہن ہے۔ اصولاً دونوں جماعتوں کو کافی پہلے دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرلیا جانا چاہئے تھا۔ خصوصاً الاتحاد العالمی دنیا بھر میں مسلم معاشروں کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ یہ القاعدہ تنظیم کی پیدائش کے ساتھ ہی معرض وجودمیں آچکی تھی۔ اسکے تمام قائد خطے اور دنیا بھر میں اعتدال پسند روایتی اسلام کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کرتے رہے ہیں۔
الاتحاد العالمی عرب ممالک کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے منصوبے کا دوسرا نام ہے۔ انتہا پسند مذہبی جماعتیں اسے کثیر جہتی سرگرمیوں میں شامل کئے ہوئے ہیں۔ سیاسی جہادی دعوے ، اشتعال انگیزی ، مسلح جماعتو ںکی تشکیل اور قانونی دینی اداروں کے حریف اداروں کا قیام اسکی نمایاں علامتیں ہیں۔
ایسے وقت میں جبکہ القاعدہ کے ارکان دھماکو ںاو رخونریزی کی پالیسی پر عمل پیرا تھے،ایسے وقت میں جب ابو مصعبالزرقاوی اسلام کے نام پر لوگوں کی گردنیں اتار رہے تھے۔ الاتحاد العالمی لعلماءالمسلمین 2004ءکے دوران قطر میں قیام پذیر ہوئی۔ یہ انتہا پسند اسلام کا منصوبہ تھا۔ اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے مفتیان نے فتوے دیئے۔ تشدد کو جائز قرار دیا۔ روایتی علماءاور مفتیانِ کرام نے بے حیثیت بنانے والی فکری جنگ میں حصہ لیا۔ معروف علماءکی قدر و قیمت کو نقصان پہنچایا گیا۔ انکے فتوﺅں کو احمقانہ قرار دیا گیا۔ ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ سعودی عرب کے روایتی سلفی علماءنے نویں دہائی میں ہی جہادی آپریشنوں کی حرمت کے فتوے دیئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کے فرمانروا سے بغاوت کرکے اس طرح کے آپریشن جائز نہیں جس پر الاتحاد العالمی کے مفتی خفا ہوگئے تھے۔ انہوں نے خودکش دھماکوں کو نہ صرف یہ کہ جائز قرار دیا تھابلکہ اسلامی فقہ سے اسکے دلائل بھی پیش کئے تھے۔ الاخوان اور قطر کے ماتحت الاتحاد العالمی نے اسلامی دنیا کے بڑے شرعی دینی اداروں کو تہہ و بالا کرنے کی مہم چلائی۔ سعودی عرب میں سربرآوردہ علماءبورڈ اور مصر میں الازہر کے دارالافتا ءکو بے وقعت بنانے کی کوشش کی۔ دہشتگردوں نے اُس زمانے میں انتہا پسندانہ دینی فتویٰ اکیڈمیاں قائم کیں۔ القاعدہ اور داعش نے اپنے اپنے فتویٰ ادارے بنائے۔ ان جماعتوں نے اعلان کیا کہ انکے فتوﺅں کا دائرہ مقامی حدود تک محدود نہیں بلکہ انکے فتوے پوری دنیا کیلئے ہیں۔ بین براعظمی ہیں۔
افغانستان میں جب القاعدہ نے جنم لیا اُسی زمانے میں 1987ءمیں لندن میں یورپی افتاءکونسل قائم کی گئی۔ کیا یہ صرف ایک اتفاق تھا کہ یوسف القرضاوی اسکے صدر بنے اور قرة داغی انکے نائب قرار دیئے گئے؟ یہ دونوں شخصیات ہی آئندہ 20برسو ں کے دوران انتہا پسندانہ افکار کی قیادت کرتی ہوئی پائی گئیں۔
جس طرح القاعدہ نے مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک میں اپنی شاخیں قائم کیں اسی طرح خلیجی ممالک، عراق، لبنان، شمالی افریقہ، فرانس ، جرمنی، بیلجیئم، برطانیہ اور آئرلینڈ میں بھی انتہا پسند فقہی اکیڈمیوں اور تنظیموں کی شاخیں استوار کی گئیں۔
ان اکیڈمیوں سے مختلف ممالک کی شخصیات منسلک ہوئیں۔ اس اتحاد نے اکیڈمیوں کے پلیٹ فارم سے انتہا پسند جماعتوں کو مذہبی سند مہیا کی۔
اگر ہم یہ بات تسلیم کرلیں کہ دہشتگردی کے باب میں سب سے خطرناک چیز انتہا پسندانہ افکار ہیں تو ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینا پڑیگی کہ اگر مذکورہ مذہبی شخصیات نہ ہوتیں تو دنیا بھر میں مسلح جماعتیں نہ پھیلتیں۔ اگر مذکورہ فقہ اکیڈمیاں اور دینی ادارے نہ ہوتے تو دنیا بھر میں انتہا پسند علماءکی سرپرستی نہ ہو پاتی۔ اگر ریاست ِ قطر اس قسم کی تنظیموں اور اداروں کی میزبانی نہ کرتا اور خطیر رقمیں فراہم کرکے انہیں فنڈ مہیا نہ کرتا اور ابلاغی و فطری پھیلاﺅ کی سہولتیں نہ دیتا ،ضمیر خریدنے کیلئے مطلوب بجٹ نہ پیش کرتا تو ایسی حالت میں ہماری دنیا دہشتگردی سے محفوظ رہتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭