Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھرنے کے اثرات

جن ملکوں میں فرقوں کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی اُن میں سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملا
* * * * * * خلیل احمد نینی تال* * * * * * 
  گزشتہ ہفتہ کے کالم میں راقم نے دھرنے کے اثرات پر جو خد شات لکھے تھے وہی ہوا کہ حکومت نے عجلت کا مظاہر ہ کیا اور ان نادان مشیروں کے کہنے پر اس حساس معاملے کو طاقت کے زور پرحل کرنے کیلئے دھرنے کے شرکاء پر لاٹھی چارج ،آنسو گیس ،پانی کے پریشر استعمال کرکے فیض آباد سے پورے ملک میں پھیلا دیا اور پورے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ۔باوجوداس کے چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاویدباجوہ کے مشورے کو بھی نظر انداز کرکے اپنی ہٹ دھرمی دکھائی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ فوری طور پر آرمی چیف کی مدا خلت پر کامیاب مذاکرات ہوئے اور اس طرح پاکستان کے عوام کو سکھ کا سانس میسر ہوا اور پھر حکمرانوں کو پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا ،نیزوزیر قانون زاہد حامد کو بھی مستعفی ہونا پڑا۔جاتے جاتے وہ منظور نظر اور اصلی محرک محترمہ انوشہ رحمان کی قربانی کو بچا گئے مگر اس سانحہ میں بھی کئی افراد جان بحق ہوئے اور 60کے لگ بھگ زخمی ہوگئے ۔
وزیر داخلہ احسن اقبال پہلے ان مذاکرات کا کریڈٹ لیتے رہے مگر جب دھرنے والوں نے اصل مذاکراتی ٹیم کا حوالہ دیا جس میں احسن اقبال شامل ہی نہیں تھے تو بغل بجاتے رہے ۔شرم ان کو نہیں آئی۔ کسی نے بھی اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کی نہ کسی نے استعفیٰ دیا نہ کسی نے قوم سے معافی مانگی ،نہ دھرنہ دینے والوں سے جس کے سربراہ خادم حسین رضوی نے عدلیہ کے ججوں پر بھی گندی زبان استعمال کرنے پر معافی کا ذکر کیا ۔اس کے برعکس اب یہی حکمران سپر یم کے جسٹس شوکت صدیقی اور لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحبا ن کے الگ الگ موقف کو ہوا دے کر اپنے آپ کو بے قصور بنانے میں مصروف ہیں اور اپنے اوپر سے یہ ملبہ ہٹانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اورمریم صفدر کو صدمے سے خاموشی لگ چکی ہے ۔احتساب عدالت اور نیب کا سامنا کرنے سے کترارہے ہیں ۔عدلیہ کو چاہیے کہ ان ناعاقبت حکمرانوں کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر پوچھیں جنہوں نے باہر کے آقائووں کو خوش کرنے کے کیلئے 22کروڑ پاکستانی مسلمانوں کے عقیدے سے کھیلنے کا جرم کیا،انہیںکیوںنہ سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی بھی حکمران کو قیامت تک یہ جرأت نہ ہو کہ وہ مسلمانوں کے عقیدۂ ختم نبوت پر کوئی آنچ آنے دیں ورنہ یہ قادیانی حضرات اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ گھنائونا کھیل کھیلتے رہیں گے جو وہ روز اول سے پاکستا ن میں کھیلتے آئے ہیں ۔اگر یہ پاکستان کے وفادار ہوتے اور پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے تو آج پورا امرتسر پاکستان میں شامل ہوتا ۔ان کے 2فیصد ووٹوں کی وجہ سے آج  ہند کا حصہ ہے ۔دوسر ے حال ہی میں انہوں نے اسرائیل ،ہند ،امریکہ میں جاکر پاکستان کی اقلیت کے نام پر کیچڑ اچھالی ۔
اب میں اس دھرنے کے آنے والے منفی اثرات پر آتا ہوں اگر پہلے مرحلے پرحکمران عقل سے کام لیتے تو پارلیمنٹ میں ختم بنوت کی ترمیم کے ساتھ ساتھ اُس میں شامل وزیر قانون کو رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید کی طرح فارغ کردیتے تو یہ معاملہ ٹھنڈا پڑجاتا اور اتنی خواری اور جانوں کے نذرانے بچ جاتے مگر اب یہ جماعت اور لبیک یا رسول اللہ والے مل کر کسی کیلئے بھی استعمال ہوسکتے ہیں ،جیسے ماضی میں ایم کیو ایم کو ’’را ‘‘ اور دیگر خفیہ طاقتوں نے کراچی کا امن برباد کرنے میں استعمال کیا اور جیسے افغانستا ن سے روس کی پسپائی کے بعد آج تک اُن مجاہدین کو اسلام کے نام پر طرح طرح کی جماعتیں بناکر استعمال کیا جارہا ہے ۔خو د مسلم لیگ ن والے معافی تلافی کرکے اس مسلک سے مل کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرکے آنے والے الیکشن میں ان کو دوبارہ بے قوف بناسکتے ہیں ۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ سیاسی میدان میںیہ ایک بڑی قوت بن کر ماضی کی جے یوپی کی جگہ لے سکتی ہے جس کے سندھ میں مولانا شاہ احمد نورانی او رپنجاب میں مولانا ستارنیازی نمائندگی کرتے تھے ۔اگر ایسا ہوا تو مولاناخادم حسین رضوی کی گندی زبان عمران خان کی تُوتڑاخ اب گالیوں میں سیاست تبدیل ہوجائیگی ۔اللہ محفوظ رکھے۔ راقم کو یہ بھی ڈر ہے کہ آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ ن والے پھر کوئی نیا ڈرامہ کرکے پاکستان کو کسی خطرناک موڑ پر بھی لے جاسکتے ہیں تاکہ اُن کے قائد کرپشن کے مقدمات سے نکل سکیں مگر اب ایسا بظاہر ممکن تو نہیں مگر سیاست اور کرکٹ دونوں میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا ۔کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ فی الحال مسلم لیگ ن والوں کے منہ میں تالے پڑے ہوئے ہیں ۔
دنیا میں پراکسی وار کے ذریعے پہلے کسی بھی ملک کے لوگوں میں تفرقہ پھیلایا جاتا ہے اور حالات خراب کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد فوج سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔پاکستان میں بھی آج کل یہ ہی ہورہا ہے اور ملک کیخلاف کام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور صاحب اقتدار طبقہ فوج سے کہتا ہے کہ یہ کام کرو اور پھر الزام بھی اس پر ڈال دیا جاتا ہے کہ یہ فوج نے کیاہے ۔
پراکسی وار میں میڈیا کابھی بڑا کردار ہوتا ہے لہذا میڈیا کے چند لوگوں کو خرید کرگمراہ کیاجارہاہے اور ملک اور ریاستی اداروں کیخلاف غلط پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے۔ میڈیا ہی چاہے تو اس معاملے کو بہتری سے لوگوں تک پہنچا سکتا ہے اور ان کے جذبات کارخ موڑ سکتا ہے ۔پاکستا ن کی فوج ایک مضبوط ترین فوج ہے جس نے دہشتگردی کیخلاف ایک جنگ جیتی ہے ۔اس نے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو تباہ وبرباد کردیا ہے اور اپنے ملک کو بڑے نقصان سے بچالیا۔ جن ملکوں میں فرقوں کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی ان ملکوں میں کسی فرقے کو سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملا۔
 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں