Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرقد انبیاء کی سرزمین ، فلسطین

 محمد ہارون فیضی
 
ارض فلسطین مقدس و محترم ہے  اور اسے ہر اعتبار سے برتریت حاصل ہے۔ انبیائے کرام علیہ السلام کی کثیر تعداد یہاں مبعوث ہوئی اور مقدس مسجد اقصیٰ مسلمانانِ عالم کی 3 عبادتگاہوں میں سے ایک ہے جس کی جانب سفر جائز ہے۔مسجد اقصیٰ دنیا کی دوسری مسجد ہے جو کعبہ کے بعد تعمیر ہوئی،مقد س اور محترم اس لحاظ سے بھی ہے کہ اسی میں رحمت اللعالمین نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی تھی۔
تاریخ میں فلسطین کا قدیم نام ’’ارض کنعان‘‘ ہے جو بلاد عرب سے 2500ق م میں آنے والے کنعانیوں کی نسبت سے رکھا گیا۔ فلسطین کا نام اس وجہ سے پڑا کہ12ویں صدی عیسوی میں دریائے ایجن کے ساحلی علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے مغربی ایشیا کے یہ لوگ ابتدا میں ساحلی علاقوں میں آباد ہوئے لیکن جلد ہی کنعانیوں میں گھل مل کر اس کا ایک حصہ بنے کہ نام کے صرف کنعانی رہ گئے۔ 
مزید پڑھیں:بیت المقدس ، تازہ ترین
بیت المقدس کا سب سے قدیم نام ’’ یبوس ‘‘ ہے جس کی بنیاد الیبوسین کے ہاتھوں پڑی۔ شروعات میں اس کا نام ’’یوروشالم‘‘ رکھا گیا تھا مگر اہل مغرب نے بعد میں اسے ’’ اروشلم‘‘سے موسوم کرنے لگے بعض کے نزدیک شلم کا اضافہ ’’ شلم یا شالیم ‘‘ نے کیا تھا جو 2008 ق م   میںیہاں کا حکمراں تھا۔                                                                                                   ارض مقدس فلسطین پر ہمیشہ سے یہودیوں نے غاصبانہ تسلط جما رکھا ہے۔ یہی وہ زمین ہے جس کے باعث ابتداء سے لیکر آج تک بے شمار معصوموں کو موت کی گہری نیند جبرا ًسلا دیا گیا۔ زندہ بچوں کو درگورکیا گیا،بم  وبارود اور جدید قسم کے آلاتِ حرب سے قصرو کاشانے کو تباہ و برباد کیا گیا۔ اس پاک زمین پر جہاں انبیائے کرام کی بعثت ہوئی، نبی نے یہاں سے معراج کیلئے رخت سفر باندھا،اسکو حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں عیسائیوں نے آپ کے حوالے کر دیالیکن حالات بدستور قائم نہ رہے جس کی بنیاد پر دوبارہ یہودیوں کے استعماری چنگل میں چلا گیا۔ یہودیوں نے اس پر1097ء میں اپنا قبضہ جمایا پھر اسلام کے مردمجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1352ء میں یہودیوں کے چنگل سے آزاد کرایا۔
مزید پڑھیں:بیت المقدس ، برکتوں والی سرزمین
مرد مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی کی کامیابی کے بعد یہودیوں نے ایک باقاعدہ تحریک قائم کی جسکو صہیونی تحریک کہاجاتا ہے۔ صہیون کالفظ  صہیونیت مشتق ہے ۔صہیون  ایک پہاڑ ہے  جو قدس کے جنوب مغرب میں  واقع ہے۔ یہود اپنے عقیدے کے مطابق وہاں کا حج کرتے ہیں اور مرادیں بھی مانگتے ہیں۔1980ء میں جب یہود نے قدس کو  یہودیوں کا قومی وطن بنایا اور ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کو مسجد اقصیٰ کی جگہ نصب کرنے کا عزم کیا تو اس کیلئے ایک تنظیم بنانے کی ضرورت محسوس کی تو انہوں نے اس تنظیم کا نام ایک یہودی صحافی ’’ ناتاں بیرینام ‘‘ کی تجویز اور صہیون کی مناسبت سے صہیون رکھا۔ 
صہیونیت تنظیم کو متحرک اور فعال بنانے میں یوں تو پوری دنیا کے یہودی شریک ہیں مگر چند لوگ ان تمام میں سے سرفہرست ہیں جن کو تاریخ مقدس کبھی بھلا نہیں سکتی، موسی ھیس ،لیولبیکر، حاخام،زفی کالیشراور ہرتزل ہیں، ان تمام کی یہ فکر تھی کہ ارض فلسطین کو یہودیوں کاقومی وطن بناکراسی تنظیم کے حوالے کردیاجائے اور انکے عقائد کے مطابق اللہ نے القدس کو ان ہی کے لئے خاص کر رکھا ہے۔اس منظم تحریک کا آغاز17ویں صدی عیسوی میں ہوچکاتھااور اس کا پہلا ہیڈکوارٹر ’’ وادی انا‘‘ تھا،لیبون بینسکرکی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ جو صہیونی تحریک کا صدر تھا وہی اس قومی وطن کا داعئی اول کہا جاتا ہے۔اس نے 1882ء بمطابق 1299ھ میں بریکن میں اپنی کتاب ’’ذاتی آزادی‘‘ شائع کرائی جس میں قومی وطن پر بنائے جانے پر زور تھا، اس کے بعد1894ء میں ایک یہودی صحافی ڈاکڑ تھیوڈورہرتزل نے یہودی مملکت کے نام سے ایک رسالہ شائع کرکے صہیونیوں کیلئے قومی وطن کا ٹھوس تصور پیش کیا۔ہرتزل نے اگست 1897ء میں سوئٹزرلینڈ کے مقام باسیل میں ایک عالمی کانفرنس بلائی اوراس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے اس نے کہا ’’ ہم یہاں اس گھر کے سلسلے میں اساسی پتھر رکھنے کیلئے جمع ہوئے ہیں جو عنقریب یہودی امت کیلئے پناہ گاہ ثابت ہوگا‘‘ یہ ہرتزل اتنا بڑا متعصب تھا کہ اس نے ہمیشہ داؤ پیچ کی کوشش کی کیونکہ فتنہ رچنے میں وہ بہت ماہر شخص تھا۔ ایک مرتبہ  1897ء کو سلطان عبد الحمید کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے 6 سال تک مسلسل کوشش کی لیکن سلطان نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’ ہرتزل کو فلسطین میں ایک یہودی ریاست بنانے کی کوشش ترک کردینی چاہیئے ۔یہودیوں کو فلسطین اسی وقت مل سکتاہے جب عثمانی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے‘‘ جب سلطان کی حمایت نہ مل سکی تو ہرتزل سیدھے  بر طا نیہ پہنچ گیا ۔جب ترکوں سے لڑائی ٹھنی تو  حکومت  بر طا نیہ جو قومی وطن کی موافقت میں تھی راضی ہوگئی، اس مقصد کے واسطے 1917ء  میں یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدہ کرلیا جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے۔برطانوی وزیر خارجہ ’’لارڈ بالفور ‘‘ نے 27 نومبر 1917ء میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کی مناسبت سے ایک الگ ملک قائم کرنے پر زور دیا۔
مزید پڑھیں: القدس کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ مسترد کریں
بیت المقدس بے شمار فضیلتوں کا حامل ہے۔ اس ارض مقدس کے محترم ہونے کیلئے بس قرآن کریم کی یہ آیت ہی کافی ہے جس میں نبی اکرم و مکرم کو راتوں رات معراج کرانے کی خوشخبری ہے۔قرآن مقدس  کی یہ مذکورہ آیت کریمہ مسجد اقصیٰ کی اہمیت کو اجاگر کررہی ہے جس میں بتایا گیا کہ یہی وہ رات ہے جس میں آپ    مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی جانب جبریل امین  ؑکے ساتھ براق نامی خچر پر سوار ہو کر پہنچے اور وہیں تمام نبیوں کی امامت فرماکر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کیلئے رخت سفر باندھا۔ اسی معراج میں نماز فرض ہوئی ، یہی وہ مسجد ہے جس کی جانب  رخ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی،یہی وہ ارض مقدس ہے جس کی جانب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم والوں کومصر سے ہجرت کرکے جانے کو کہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے اسی سرزمین اقدس و مقدس و محترم کی جانب ہجرت کی تھی جس میں دنیا والوں کے لئے برکت ہے۔یہ ارض اتنی متبرک ہے کہ اسکے گود میں نبیوں کی ایک لمبی فہرست سوئی ہوئی ہے۔ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم ، حضرت ہود ، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قبریں یہیں موجود ہیں ۔ اس بات  کی وضاحت مجموع فتاویٰ میں موجود ہے کہ  شیح الاسلام ابن تیمیہؒ  بھی وہیں دفن کئے گئے ہیں ۔
مزید پڑھیں: القدس اور فلسطین کا مسئلہ حق اور انصاف کی بنیاد پر حل کیا جائے، سعودی علماء
 
 
 

شیئر: