Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”دست طلب پہ دست عطا رکھ دیا گیا “

 
سفیر پاکستان ہشام بن صدیق کی زیر سرپرستی پی سی جی کا سالانہ مشاعرہ
رپورٹ: جاوید اقبال۔ریاض
بڑا مناسب سوال ہے ، کسی زبان کے نصیب میں اگر شاعر نہ ہوں تو نثر نگاروں کے ہتھے چڑھ کر کن جان گسل مراحل سے گزرتی اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔ ذہن کے نہاں خانوں میں کیسے کیسے خیالات سر اٹھاتے ہیں۔ اگر شیریں اور دلفریب لہجے والی فارسی کو فردوسی، خیام، حافظ اور سعدی میسر نہ ہوتے تو کون ابن آدم کے رویوں کا ذکریوں امر کرتا کہ صدیوں پیشتر کا بیان آج کی داستان بھی کہہ رہا ہوتا۔ گلستان سعدی کا یہ خوبصورت قطعہ کیسے ہمارے خانہ¿ چشم کو راحت بخشتا:
اگر زباغ رعیت ملک خورد سیبے
برآورند غلامان اودرخت ازبیخ
یہ پنج بیضہ کہ سلطاں ستم روادارد
زنند لشکریانش ہزار مرغ بہ سیخ
”اگر رعایا کے باغ سے بادشاہ ایک سیب کھاتا ہے تو اس کے غلام سارے درخت کو جڑ سے اکھاڑپھینکتے ہیں اور اگر کوئی سلطان5انڈوں کے برابر بھی ظلم روا رکھتا ہے تو اس کی فوج ہزار مرغ بھون کر کھا جاتی ہے۔“ صرف 4مصرعوں میں شاعر نے صدیوں کا قصہ غم و حرمان بیان کر دیا ہے۔ اسی برصغیر کی صدیوں پرانی زبان پنجابی سے بعض شعراءکو نفی کر دیا جائے تو باقی ادق محاوروں اور گنجلک اصطلاحوں کا ناقابل فہم مجموعہ رہ جائے گااور جب یہ شعراءگنگناتی بحر میں تلخی ایام کا ذکر کرتے ہیں تو دل پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔
 عہد مغلیہ میں اپنی نقش سازی کے مراحل طے کرنے والی ریختہ سے بعد کے برسوں میں اپنے ردیف و قافیہ سے زبان کو حُسن بخشنے والے میر، غالب ، فیض اور اقبال نہ ہوتے تو آج کی اردو روایتی الفاظ اور مہمل نطق کا مجموعہ ہی ہوتی۔ اقبال جیسا کوئی نہ ہوتا جو اپنے حسن بیان میں چمن سے اٹھتی مترنم صدائیں بھرتا اور کہتا:
اڑالی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے 
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری 
توانہی ہستیوں نے شعرو سخن کی محافل کے انعقاد کو عروج تک پہنچایا اور انہی گریباں چاک عاشقانِ شعر کے اتباع میں آج ہر اس جگہ جہاں اردو کے مجنوں باہم ہوتے ہیں تو محفلِ شعر جما لیتے ہیں۔
کل کا مورخِ زبان جب اردو کے آج پر قلم اٹھائے گا تو ہر حال میں ان پردیسیوں اور غریب الوطن صحرانشینوں کا ذکر کرے گا جن کے اندر زبانِ مادر یوں گھر کئے بیٹھی ہے جیسے بدو کے اندرخیمہ ۔ قدم تو وطن سے حالات نے نکال دیئے لیکن ذہن سے وطن کی خوشبو نہیں نکل سکی۔ 
مزید پڑھئے:ہر شخص نے بنا لیا جب آشیاں الگ
ایسی ہی ایک شام تھی جب پاکستان کلچر گروپ نے سفارتخانہ پاکستان کے تعاون سے اپنے سالانہ مشاعرے کا انعقاد کیا۔ یہ بین الصوبائی محفل تھی کیونکہ اس میں شرکت کے لئے بحرین سے طارق محمود اور الخبر ، دمام سے قدسیہ ندیم لالی، سہیل ثاقب اور اقبال احمد قمر مدعو تھے۔ ریاض سے شرکت کرنے والے مقامی شعراءمیں کہنہ مشق بھی تھے او رنوآموز بھی ، لیکن حقیقت ہے کہ انتہائی معیاری انداز میں قصہ ہائے دل کہے گئے اور داد دینے والوں نے بھی بخل سے کام نہ لیا۔ اقبال احمد قمر عنقریب مستقلاً پاکستان جا رہے ہیں چنانچہ تقریب ان کے لئے الوداعیہ بھی بن گئی۔ سہیل ثاقب مہمان خصوصی تھے جبکہ اقبال قمر اعزازی مہمان۔ پاکستان کلچر گروپ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متعدد ایسے ارکان ہیں جن میں سے ہر ایک ہر وقت ناظم تقریب بننے کو بے قرار ہوتا ہے۔ یہاں بھی کمی کا احساس نہ ہوا۔آغاز پاکستان کلچر گروپ کے جنرل سیکریٹری ظفر اللہ خان نے کیا جنہوں نے اپنے خطبہ¿ استقبالیہ میں سفارتخانہ¿ پاکستان اور سفیر پاکستان کا تقریب کی سرپرستی کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ برسوں میں سالانہ مشاعرے میں پاکستان سے خصوصی طور پر اہم ادبی شخصیتوں کو مدعو کیا جاتا تھا تاہم اس برس فیصلہ کیا گیا تھا کہ بین الصوبائی مشاعرے کا انعقاد کیا جائے۔ انہوں نے بحرین ، الخبر، دمام اور الھفوف سے آئے مہمان شعراءاور شاعرات کا شکریہ ادا کیا۔
سوشل ایونٹس کمیٹی کے ڈاکٹر منصور میمن نے نظامت کرتے ہوئے دوبارہ سفیر پاکستان کے لئے اظہار ممنونیت کیا اور کہا کہ پاکستان کلچر گروپ اپنی ادبی ، سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں ہمیشہ سے فعال رہا ہے۔ بعدازاں سفیر پاکستان ہشام بن صدیق نے حاضرین سے خطاب کیا اور پاکستان کلچر گروپ کا اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ تنظیم مشاعروں کا انعقاد کر کے قومی ثقافت کو زندہ رکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ ہر سال اس محفل کے انعقاد سے لوگوں کو نہ صرف تفریح فراہم کرتے ہیں بلکہ اپنی مادری زبان سے بھی وابستہ رکھتے ہیں۔ خان ہشام بن صدیق نے واضح کیا کہ سفارتخانہ غیر سیاسی پروگراموں کی ہر لحاظ سے حمایت کرے گا اور ان کے انعقاد میں معاون ثابت ہوگا۔
پاکستان کلچر گروپ کے بانی چیئرمین ڈاکٹر ریاض جاوید خواجہ نے اپنے خطاب میں سفیر پاکستان خان ہشام بن صدیق کا شکریہ ادا کیا اور واضح کیا کہ تنظیم نے اپنے قیام کے برسوں میں نہ صرف فن و ادب کی خدمت کی بلکہ مقامی پاکستانی کمیونٹی میں فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لے کر ایک محترم مقام حاصل کر لیا تھا۔ انہوں نے سفارتخانے کے لئے اظہار تشکر کیا جس نے ہمیشہ کلچر گروپ کے ساتھ تعاون کیا۔ شمشاد علی صدیقی نے نظامت سنبھالی اور باقاعدہ مشاعرے کا آغاز ریاض کے معروف نعت خواں محمد اصغر چشتی کی پیش کی گئی نعت رسول مقبول سے ہوا۔ 
آگئے آج زمانے میں زمانے والے
روح خوابیدہ ¿ہستی کو جگانے والے
زیست کی راہ سے کانٹوں کو ہٹانے والے
تلخیاں عہد گزشتہ کی مٹانے والے
منصور محبوب چوہدری کا خیال قابل داد تھا۔ 
جاتے ہوئے یہ مجھ پر احسان کرتے جانا
ملنے کے ختم سارے امکان کرتے جانا
گو زندگی کو میری دشوار کردیا تھا
اب موت کو تو میری آسان کرتے جانا
رانا شاہد حبیب نے زندگی کے حسین لمحوں کو کیسے قید کیا ،ملاحظہ ہو:
”گرا پھول تیرے جوڑے سے ہم نے سنبھال رکھا ہے::تب سے دل میں مرض محبت کوپال رکھا ہے::غیروں سے رابطے ہیں ہم سے نظرچرائے::تیری بزم نے یہ کیسا استقبال رکھا ہے“
محسن رضا ثمر کا کلام نئے اور تازہ جذبوں کا عکاس تھا۔ نئے سوال اٹھاتا تھا۔
غم حیات نے جب جب تھکا دیا ہے مجھے
ترے خیال نے اک حوصلہ دیا ہے مجھے
اتارنا ہے مجھے قرض کچھ پتہ تو چلے
کہ زندگی نے لیا کیا ہے، کیا دیا ہے مجھے
شاہد خیالوی نئے لہجے کے شاعر ہیں۔ خوبصورت ڈکشن کو الفاظ میں قید کرنا جانتے ہیں۔ انہیں خوب داد ملی:
پھر اس نے مجھ کو دیکھ لیا اک ادا کے ساتھ
پھر مقصد حیات میں ترمیم ہو گئی
دست طلب پر دست عطا رکھ دیا گیا
بکھرے ہوئے وجود کی تنظیم ہو گئی
مسعود جمال زندگی کی حقیقتوں کو بڑے دلفریب انداز میں سمجھا گئے، ملاحظہ ہو:
وحشت کے سائے سائے میں پل کر جواں ہوئے 
بچے ہمارے عہد کے آتش فشاں ہوئے
فصلِ بہار میں چلی آندھی عجیب ہے
کیا کیا چھپے تھے راز وہ ہم پر عیاں ہوئے
صدف فریدی کے لفظ میں تاثیر ہے۔ روایتی لب و لہجے میں نئی بات کہنے اور داد سمیٹنے کا فن جانتے ہیں۔ انہیں بے حد سراہا گیا:
جو جارہے ہو تو آنکھیں بھی ساتھ لے جا¶
تمہارے بعد بھلا دیکھنے کو کیا ہو گا
مزید پڑھئے:سلسلہ نہ چھوڑیں گے ہم بھی گھر بنانے کا
الھفوف سے آئی مہمان شاعرہ غزالہ کامرانی ارمانوں اور جذبوں کی ساحرہ ہیں۔ ایک بار سنا چکیں تو حاضرین کے پرزور اصرار پر دوبارہ اپنے کلام سے محظوظ کرنے کے لئے آئیں :
نمونہ کلام
سارے پھول اور سارے نغمے تیرے نام
سارے ارماں سارے جذبے تیرے نام
دکھ کی کالی رات گھنیری میری ہے
سکھ کے سارے میٹھے سپنے تیرے نام
اپنا تن من دھن سب تیرے نام لکھا
پیار بھرے یہ سارے تحفے تیرے نام
بحرین سے آئے مہمان ریاض شاہد کے لہجے میں جستجو تھی۔ وہی تلاش جو شعر میں حسرتوں کو جنم دیتی ہے: 
لگائی کس نے صدا پر صدا کوئی تو تھا
جو تو نہیں تو نہاں دوسرا کوئی تو تھا
یہ کس کے ٹوٹنے کی سن رہا ہوں آوازیں
جو مجھ میں ٹوٹا وہ شیشہ نما کوئی تو تھا
وقار نسیم وامق ریاض کی آواز ہیں۔ کہنہ مشق ہو چکے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں، دامن دل پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ مختصر بحر،موثر لہجہ:
اجنبی راستے بدل ڈالو
یہ نئے سلسلے بدل ڈالو
مت بگاڑو غزل کے آہنگ کو
بے تکے قافیے بدل ڈالو
شعر میں پھلجھڑیوں کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک شوکت جمال کا کہا اس میں شامل نہ ہو۔ مسکراہٹیں اورقہقہے بھی داد دیتے ہیں: 
چشم ما روشن دل ماشاد اک تہذیب تھی
گردش دوراں نے لیکن اس کے دو ٹکڑے کئے
چشم ما روشن کہا ،وارد ہوئے مہمان جب 
اور دل ماشاد جب وہ گھر سے رخصت ہولئے
سلیم کاوش کے لہجے کا کرب ماضی کے اندوہ کی خبر دیتا ہے۔ خیال کی اڑان ملاحظہ ہو: 
پرندے پر کسی نے اس لئے گولی چلائی تھی
کہ اس نے آشیانے کے لئے تنکے چرائے تھے
دسمبر میں سنہری دھوپ کا میں کیا کروں لوگو
اسی سورج نے میرے ملک میں بچے جلائے تھے
صرف سعودی عرب نہیں بلکہ خلیج میں جن گنے چنے لوگوں نے شعر و ادب میں نام کمایا ہے، قدسیہ ندیم لالی کا شمار ان میں نہ کرنا اردوادب سے زیادتی ہوگی۔ نرم لہجے میں لطیف جذبوں اور شعر کی حرمت قائم رکھتی ہیں۔ دھیمی آواز لیکن خیال کی مضبوط بندش! سامع گوش برآواز ہو جاتا ہے۔ منطقہ شرقیہ سے آئی تھیں اور نقش ثبت کر گئیں: 
پاک دامن نہیں جو لوگ وہی
کیوں مجھے سنگسار کرتے ہیں
عمر بھر منتظر رہے اُس کے 
اور کچھ اانتظار کرتے ہیں
خلیج میں جب بھی اردو کی اٹھان کی بات چلے گی تو پھریوسف علی یوسف کا ذکر بھی چھڑے گا۔ درد د ل اور محرومیوں کو انتہائی خوبصورت پیرائے کا لباس پہنایا ہے او رروایت میںرہ کر بھی نئے خیال کی حسن آفرینی کی ہے۔ ملاحظہ ہو:
غم ہجراں کے بارے بے خبر کو کچھ نہیں معلوم
یہ کیسا چارہ گر ہے چارہ گر کو کچھ نہیں معلوم
پرندے کر کے ترک آشیاں ہونے کو ہیں رخصت 
اور اس ہجرت کے بارے میں شجر کو کچھ نہیں معلوم
شاعر کی طبع نازک پر حالات ہمیشہ نقش گری کرتے ہیں۔ دلّی اُجڑی تو لکھن¶ پہنچ میر تقی میر رات مشاعرے میں پردیسی بنے پکار اٹھے تھے:
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں روزگار
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیا رکے
اور ہماری اس شام کے اعزازی مہمان اقبال احمد قمر کا ذہن بھی چند دنوں بعد کی نصیبوں میں لکھی ہجرت کا سوچ کر مضمحل ہے۔ لفظ سوچوں اور خدشات کے دھارے پر ایک نامعلوم مستقبل کی تشویش میں ہیں:
مرا سفر میری قسمت ہے ،انتخاب نہیں
میں تھک چکا ہوں مگر بیٹھنے کی تاب نہیں
میں ایک قطرہ سہی پر مجھے حقیر نہ جان
اگرمیں موج میں آیا، مرا جواب نہیں
اور پھر 4مجموعہ ہائے کلام کے مصنف اور بزم کے مہمان خصوصی سہیل ثاقب کی باری تھی۔ منطقہ شرقیہ سے آئے اس مہمان نے نیا آہنگ متعارف کرایا او ربے پناہ داد حاصل کی۔ ملاحظہ ہو:
کبھی جو راہ میں آتے کوئی خوشی دیکھی
میں دکھ چھپائے ہوئے فاصلے سے گزرا ہوں
یہ سوچ کر مجھے پہچان لے گا تو شاید
میں بار بار تیرے سامنے سے گزرا ہوں
اور سہیل ثاقب کا یہ انداز بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ: 
شریر بچے کا یہ مان اچھا لگتا ہے
یہ چاند چھونے کاارمان اچھا لگتا ہے
تمہارے جانے کا دکھ تو ضرور ہے لیکن 
تمہارے آنے کا ارمان اچھا لگتا ہے
تقریب کے آخر میں پاکستان کلچر گروپ کی طرف سے سفیر پاکستان ، مہمان خصوصی اور اعزازی مہمان کو یادگاری شیلڈز دی گئیں۔ 
 

شیئر: