Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قاتل مارنے سے قاتل ختم ہو جائیں گے ؟ !

وسعت اللہ خان
انسانی حقوق کی سرکردہ عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹر نیشنل نے  سزائے موت دینے والے ممالک کی جو فہرست مرتب کی ہے، اس میں چین اور ایران کے بعد پاکستان تیسرے  نمبر پر ہے۔چلئے پاکستان کسی شعبے میں تو ٹاپ تھری کی ورلڈ رینکنگ میں آیا۔
مچھر ضرور مارنے چاہئیں کیونکہ ان سے ملیریا اور گندگی پھیلتی ہے لیکن جن جوہڑوں اور نالیوں میں مچھر پیدا ہوتے ہیں وہ چند ہی دنوں میں مچھروں کی ایک نئی کھیپ تیار کردیتے ہیں اور ہم پھر انہیں مارنے پر لگ جاتے ہیں۔جوہڑ اور نالیاں جوں کی توں رہتی ہیں۔بالکل ایسے جیسے کنوئیں کو پاک کرنے کیلئے 40 ڈول پانی نکال لیا جائے مگر کتا نہ نکالا جائے تو فائدہ ؟ 
ہم میں سے ہر شخص زندگی میں کم ازکم کسی ایک آدمی یا عورت کو کسی بھی سبب قتل کرنے کے بارے میں کبھی نہ کبھی سوچتا ضرور ہے۔وہ الگ بات کہ کر نہیں پاتا یا اس خیال کو چند ہی لمحوں یا دنوں میں جھٹک دیتا ہے۔
نفسیات دان اور سماجی ماہرین کسی بھی قتل کی کوئی بھی  تاویل لاسکتے ہیں۔بچپن کی محرومیاں ، والدین کی بے توجہی ، بری صحبت ، تنہائی  ، انتقامی جذبہ ، غصہ ،  اکساہٹ ،  لالچ ، پاگل پن وغیرہ وغیرہ۔اگر ان اسباب و محرکات کو مان لیا جائے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ان میں سے  چند ہی قاتل بن پاتے ہیں اور باقی قتل کے بارے میں سوچتے رہ جاتے ہیں۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ  زیادہ تر قاتل انہی وجوہ کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔تو پھر جو قاتل سیریل کلرز بن جاتے ہیں یا پھر وہ  جو اُن  اجنبیوں یا شناساؤں کو اذیت دے دے کر مارتے ہیں جنہوں نے ان کا کبھی کچھ بھی نہیں بگاڑا ؟
مثلاً 19 ویں صدی کے آخر میں لندن پر ایک سیریل کلر کا خوف3 برس تک طاری رہا۔ وہ  راہ چلتی جسم فروشوں کو گھیر گھار کا کسی تاریک گوشے میں لے جا کر گلا کاٹ دیتا تھا۔ہوسکتا ہے کہ کسی ایک یا دو  نے اسے کبھی رنج دیا ہو مگر باقی اس کے خنجر کا نشانہ بن گئیں۔ پولیس سمیت کسی کو بھی اس قاتل کا اصل نام  معلوم نہیں لہذا وہ جیک دی رپر کے فرضی نام سے جانا جاتا ہے۔آج 125 سال گزرنے  کے بعد بھی  بحث جاری ہے کہ جیک دی رپر کون تھا ؟ ایک ہی قاتل تھا یا طوائف دشمن سیریل کلرز کا گروہ تھا۔ جیک دی رپر کا کیا انجام ہوا ؟ تائب ہوا  کہ مرگیا ؟
جولائی 1995ء میں 2 امریکیوں ٹموتھی میکوے اور ٹیری نکولس کو اگر اوکلاہوما کی مقامی حکومت سے کوئی پرخاش تھی تو انہوں نے اس کا بدلہ اس عمارت میں موجود 700سے زائد لوگوں سے ٹرک بم ٹکرا کر کیوں لیا ؟
6سال قبل نیو نازی نظریات سے متاثر آندرے بریوک نے ناروے کے  چھوٹے سے جزیرے اوٹویا میں جاری ایک سمر کیمپ  میں فائرنگ کرکے77 لوگوں کو کیوں قتل کر دیا ؟ کیا قاتل کی اس ظاہری منطق پر یقین کرنا کافی ہوگا کہ وہ یورپ میں آباد مسلمان تارکینِ وطن اور ان کی دہشت گردانہ سوچ کے خلاف ہیمگر مرنے والوں میں تو ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔
انفرادی قاتل ہو کہ اجتماعی ، دنیا کا کوئی سماج  دعویٰ نہیں کرسکتا  کہ وہاں کوئی  قاتل پیدا نہیں ہوگا۔80 کے عشرے میں کراچی میں ایک شخص یا گروہ نمودار ہوا جس کی دلچسپی بس اتنی تھی کہ فٹ پاتھ پر سوئے  لوگوں کا سر کچل دیا جائے۔ درجن سے زائد ایسی وارداتیں کرنے کے بعد یہ فرد یا گروہ اچانک رک  گیا۔حکومت سے  عام شہری تک کوئی بھی33 برس گزرنے کے باوجود نہیں جانتا کہ ہتھوڑا گروپ کون تھا ،  کہاں سے آیا  ، کدھرگیا وہ۔
دسمبر 99ء  میں لاہور کے ایک سیریل قاتل جاوید اقبال نے خود ہی ایک اخبار کو اعترافی خط بھیجا کہ وہ  100 سے زائد لاوارث بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے  ان کے باقیات اپنے ہی گھر میں رکھے  تیزاب کے ڈرم میں گھلا چکا ہے۔اس اعترافی خط سے پہلے نہ تو کبھی جاوید اقبال کے اہل ِ محلہ کو شک ہوا ،  نہ ہی پولیس کو۔ اعترافی خط کے بعد پولیس نے بھی ’ ایفی شنسیاں ’ دکھائیں اور مفرور سیریل قاتل کے فلیٹ سے 3 لوگوں کو پکڑا۔ان میں سے ایک تو دورانِ تفتیش ہی ہلاک ہوگیا مگر دوسرے نے جاوید اقبال کا ٹھکانہ بتا دیا۔عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنائی لیکن اس سے پہلے کہ سرکار  سزا پر عمل کرتی دونوں مجرموں نے بڑے اطمینان سے ہائی سیکیورٹی جیل میں چھت سے لٹک کر خود کشی کرلی۔
اپریل2014,ء میں  مری کے ایک رہائشی ندیم نے اپنے پیر صاحب کے مشورے پر زندگی خوشگوار بنانے کیلئے اپنے ہی 2بھتیجوں کو اغوا کرکے ذبح کردیا۔قاتل کی زندگی تو خیر کیا خوشگوار ہوتی خود پیر صاحب بھی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔
بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ انفرادی و اجتماعی قتل کو بھلے آپ اسباب و محرکات کے کتنے اور کیسے ہی لبادے پہنا دیںمگر  اس سوال کا کیا جواب ہے کہ اگر کوئی دماغی کمی یا محرومی ہی انسان کو قاتل بناتی ہے تو پھر  دنیا کی8 ارب آبادی میں سے آدھے یا ایک چوتھائی یا 10فیصد  لوگ قاتل کیوں نہیں ؟
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان  میں اس وقت کوالیفائیڈ ماہرینِ نفسیات کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے جبکہ ایک دوسرے سے بیگانہ ہمسائیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ایسے میں کون کون قاتل آپ کے پڑوس میں رہ رہا ہے کیا آپ جانتے ہیں ؟ جب آپ جانتے ہی نہیں تو اسباب پر خاک غور ہوگا۔بس سزا دیتے چلے جائیں اور اگلے برس پھر اتنی ہی قاتل کھیپ کی مزید فصل کاٹتے جائیں۔
قاتل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم 
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا 
قاتل مارنے سے قاتل ختم ہو جائیں گے ؟ !
 

شیئر: