Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موت سے پہلے غنیمت زندگی

بر ف پگھلتی ہے اورہر لمحہ پا نی بن کر فنا ہو تی رہتی ہے  فنا ہو نے کے بعد اسے جمع نہیں کیا جا سکتا،عقلمند آدمی پگھلنے سے پہلے ہی اس کو کا م میں لے آتا ہے
***مفتی تنظیم عا لم قا سمی ۔حیدرآباد دکن   ***
   اللہ تعا لیٰ نے سا رے انسا نو ں کیلئے ایک عمر متعین کر دی ہے اور انہیں اختیا ر دیا ہے کہ وہ اچھے اور نیک عمل کے ذ ر یعے عمر کے لمحا ت کو قیمتی اور کا ر آمد بنا ئیں یا بر ائیو ں اور غیر سما جی عنا صر کے شکا ر ہو کرانہیں یو ں ہی ضا ئع کر دیں۔وہ لو گ جو آخرت پر ایمان ر کھتے ہیں اور مو ت کے بعد حسا ب و کتا ب کا جن کو یقین ہے ان کے لئے یہ مختصر سی زند گی نہا یت قیمتی اور قا بل قد ر ہے۔ انہیں احسا س ہے کہ مو ت کے بعد کی نہ ختم ہو نے و الی زند گی کے بننے اور بگڑنے کا انحصا ر اسی دنیو ی زند گی پر ہے ۔اگر یہ زند گی عیش و عشر ت اور غفلت کی نذر ہو گئی تو ہمیشہ ہمیش کے ہولنا ک عذاب اور نا قا بل تصو ر مشکلا ت سے دو چا ر ہو نا پڑے گا اور اگر قر آنی اصو ل کے مطا بق زند گی گزاریں اوراس کی قد ر کر تے ہوئے خیر کی طر ف اسکے ر خ کو مو ڑ دیں تو ہمیشہ کی را حتیں اور نعمتیں میسر ہو ں گی جو ایک انسا ن کی سب سے بڑی کا میا بی ہے ۔ قر آن کریم نے اس کا وا ضح پیغا م دیا ہے ، ارشاد با ری ہے:
    ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تم لو گوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کر نے وا لا ہے۔ ‘‘(الملک2)۔
     ایک تا جر اپنے کا رو با ر کا بڑی چستی سے حسا ب رکھتا ہے ، نفع و نقصا ن پر اس کی گہری نظر رہتی ہے تا کہ ایسا نہ ہو کہ تجارت کے لئے اس کی کی گئی محنت اور جتن یو ں ہی ضا ئع ہوجا ئے ۔بڑی دو ر اند یشی سے مستقبل کے لئے پیسے کی حفاظت کر تا ہے۔خد ا نخو استہ اگر کبھی تجارت میں نقصا ن ہو جائے تو مہینو ں اس کا ملا ل باقی رہتا ہے ۔ٹھیک اسی طر ح ایک مسلما ن کو اپنے وقت کی ہر سا عت کا حسا ب کر نا چا ہئے کہ اس کا کتنا حصہ اللہ تعالیٰ کی یادمیں صر ف کیا ، کتنی دیر خد مت خلق اور نفع رسا نی میں لگا ئی‘ ملت اور سما ج کے لئے کتنے لمحا ت خر چ کئے ،بیما روں بیکسو ں اور بے سہا رو ں کو کتنا و قت دیا اور کتنا و قت ہو ٹلو ں چو راہو ں اور تما شو ں میں یو ں ہی گزاردیا ۔
    ایک شخص کو ہفتو ں اور مہینوں مسجد یا د نہیں آتی۔ عبا دت اور فرائض کے تر ک ہو نے کا کو ئی غم نہیں ہو تا ،نیک اور کا رخیر کے لئے وقت کا نکالنا دشو ار ہو تا ہے مگر کیا ایسا نہیں کہ سا را سا را دن دوستو ں کے سا تھ ہنسی مذاق،غیبت ،چغلی شکو ہ شکا یت،حسد اور فخر و غرور میں بسر ہو جا تا ہے ۔لغو یا ت اور عیش و عشر ت کے کا موں میں سا ری سا ری را ت گزر جا تی ہے اور اس ضیا عِ وقت کا اسے احسا س بھی نہیں ہوتا۔ہفتو ں مہینو ں بلکہ سا لہا سا ل اور عمرِ شبا ب کا نہا یت قیمتی حصہ بے مقصد اور شیطا نی کا مو ں میں گزار لینے کے بعد اگر کسی کو ہو ش بھی آیا تو کیا حا صل؟ وقت کا جو سر ما یہ تھا وہ تو لٹ چکا اور اب اس کی وا پسی کی کو ئی صو رت با قی نہیں۔جس طر ح بر ف پگھلتی ہے اورہر لمحہ پا نی بن کر فنا ہو تی رہتی ہے ،اس فنا ہو نے کے بعد بر ف کو جمع نہیں کیا جا سکتا۔عقلمند آد می بر ف کو پگھلنے سے پہلے ہی اس کو کا م میں لے آتا ہے۔ ٹھیک اسی طر ح اللہ کی نظر میں عقلمند اور دا ناو ہ شخص ہے جس نے اپنی جو انی کی حفا ظت کی اور اسے اللہ کی رضا کے لئے گزار ا۔
    رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مر تبہ نصیحت کر تے ہوے ار شا د فر ما یا :
    ’’5 چیزو ں کو 5 چیزو ں سے پہلے غنیمت سمجھو :جو انی کو بڑھا پے سے پہلے ‘صحت کو مر ض سے پہلے ‘دو لت کو غربت سے پہلے ، فراغت کومشغو لیت سے پہلے اور زند گی کو مو ت سے پہلے ۔‘‘(مشکٰوۃ )۔
    جو ا نی ، زند گی‘ ما ل و دو لت ، صحت و تند ر ستی اور خا لی و قت یہ وہ چیز یں ہیں جن کی قد ر کی جا ئے اور صحیح را ستے پر انہیں خر چ کیا جا ئے تو بند ہ و لا یت کے مقا م کو بھی پہنچ سکتا ہے اور یہ نعمتیں کسی کو بھی ہمیشہ کے لئے نہیں دی جاتیں بلکہ دن ڈھلنے کی طر ح ہر ایک پر زوا ل طا ری ہو تا ہے۔ وقت یکساں نہیں ر ہتا۔ کبھی ما لد ار ی ہے تو کبھی غر بت ،کبھی جو انی ہے تو کبھی بڑھا پا۔ حا لا ت بد لتے رہتے ہیں۔ نہ جا نے یہ صحت اور خو شحا لی،یہ جو انی اور زند گی کے لمحات کب چھن جا ئیں ،اس لئے رحمت دو عا لم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نعمتو ں کی قد ر کر نے کی ہدایت فر ما ئی اور اگلے مو قع کا انتظا ر کئے بغیر ابھی ہی آخر ت کے لئے کچھ سر ما یہ جمع کر لینے کا مشو رہ دیا کہیں ایسا نہ ہو کہ کا ر خیر اور فرا ئض کی ادا ئیگی کو اگلی ساعتوں کے لئے ٹا لتے رہیں اور اچا نک قو تِ عمل ہم سے ختم ہو جا ئے اس وقت چا ہنے کے با جو د بھی نیکی سے ہم محر و م رہیں گے اور آخر  و یر ان نظر آئے گی جہا ں آپ کے تعا و ن کے لئے کو ئی بھی تیا ر نہ ہو گا ۔
    یہ امر و اقعہ ہے کہ انسا ن پید ا ہو نے کے سا تھ ہی قبر کی طرف سفر شر و ع کر د یتا ہے ۔اگر اس کے مقد ر میں 60 سا ل کی عمر تھی تو جیسے ہی ایک سا ل کا عر صہ گزر ا اُس سے ایک سا ل کا وقت کم ہو گیا ۔جیسے جیسے یہ و قت گر د ش کر تا ر ہتا ہے اورہفتو ں اور مہینو ں کی شکل میں لیل و نہا ر انگڑا ئیا ں لیتا ہے ، و یسے و یسے عمرِمتعین سے وقت کم ہو تار ہتا ہے ۔ گو یا ہر نئی صبح ایک را ت اور ہر نئی شا م ایک دن چھین لیتی ہے اور اس طر ح وہ قبر سے قر یب ہو تا جا تا ہے۔
    ایک بچہ اگر شعو ر کے د ہلیز پر قد م ر کھتا ہے تو اس کے با پ کو فطر ی طو ر پر خو شی ہو تی ہے کہ اس کا نو رِ نظر اب شعو ر ی عمر کی طرف منتقل ہو ر ہا ہے حا لا نکہ بچو ں کا با شعو ر اور جو ان ہو نا اور ان کی شا دی بیا ہ خو د با پ کے لئے مو ت کا پیغا م ہے کہ بیٹا اب جو ان ہو چکا اور اب با پ کی زند گی کے خا تمے کا وقت آچکا ہے۔ بچہ ہو شمند اور جو ان کیا ہو تا ہے وہ کشاں کشا ں مو ت کی طر ف بڑھتا رہتا ہے جس کو نو جو انی ، جو انی اورکہو لت کی منزلو ں میں تقسیم کر لیا گیا ہے ، اس لئے نئے سا ل کے مو قع پر جب پر انے کیلنڈر کی جگہ نیا کیلنڈر لگا نے کے لئے ہا تھ آگے بڑھتا ہے تو فو راًاس وقت سو چنا چا ہئے کہ ہما ری عمر سے ایک سا ل کا عر صہ اور کم ہو گیا اور مزید قبر کی منز ل ہم سے قر یب ہوگئی ۔ اس وقت آپ گزشتہ مکمل ایک سا ل کا محا سبہ کیجئے کہ کل قیا مت کے لئے کتنا ذخیر ہ آپ نے جمع کیا ، کتنا نیک عمل اور کتنا بر ے کامو ں میں وقت صر ف ہو ا ۔محا سبہ کے بعد نئے سا ل کیلئے ایک نیا نظا م ِعمل تیا ر کیجئے جس میں لغو یا ت اور بے مقصد با تو ں کو با لکل جگہ نہ دی گئی ہو ۔ عبا دات‘ معا شی‘ معا شر تی اور سما جی خد ما ت پر مشتمل یہ نظا م ِزند گی ہو ، سنتو ں کے مطا بق اس کو ڈھا ل کر منظم اور پا ک و صا ف زند گی گزار نے کا عہد کیجئے ۔
     حضرت ابو ذر غفاری ؓ  کا بیا ن کہ رسو ل اکر م نے ایک مو قع پر ار شا د فر ما یا :
    ’’عقلمند شخص کے لئے لا زم ہے کہ اس پر کچھ گھڑیا ں گزریں ،ایسی گھڑی جبکہ وہ اپنے رب سے با تیں کر ے اور ایسی گھڑی جبکہ و ہ اپنی ذات کا محا سبہ کر ے اور ایسی گھڑی جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں غو ر کر رہا ہو اور ایسی گھڑی جبکہ وہ کھا نے پینے کی ضر ورتوں کے لئے وقت نکا لے۔‘‘(صحیح ابن حبا ن )۔
    یعنی دنیا کے حصو ل اور اسبا ب ِتعیش میں ہی انسا ن ایسا گم نہ ہو جائے کہ فر ائض و واجبا ت اور حقو ق کی ادا ئیگی کی فکر جا تی رہے۔ نہ مر یض کی عیا د ت اورجنا زے میں شر کت کا و قت ہے اور نہ پڑو سیو ں اور ر شتہ دارو ں کے احو ال جا ننے کی فرصت ۔ اس طر ح کی مصر و فیت
 و با لِ جا ن اور کسی سزاسے کم نہیں۔شر یعت کی نظر میں وہ نہایت بر ا اور نقصا ن اٹھا نے وا لا ہے ۔ ر سو ل اکرم    پر دعو ت و تبلیغ کی جو بھا ری ذمہ داری تھی اور جس بشاشت اور فکرمند ی کے سا تھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو انجا م دیا کیا کو ئی انجا م دے سکتا ہے ؟اس کے با و جو د آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سا تھیو ں سے ہنسی اور مزاح بھی فر ما تے ، دنیا کی بھی باتیں کر تے‘ ازوا ج مطہر ات کے پا س جا کر ان کے حالا ت دریافت کر تے ، سما ج اور معا شر ہ سے با خبر ر ہتے‘ بہت سے کام خو د کیا کر تے تھے ۔
    اس طر ز زند گی میں سا رے مسلما نو ں کے لئے ایک بڑا پیغا م ہے کہ اپنے نظا م او قا ت کو اس طر ح تقسیم کر یں جس میں لکھنے پڑھنے اور کسب معا ش کا بھی وقت ہو،سو نے اور آرا م کرنے کا بھی و قت ہو‘ اپنے ر شتہ دارو ں اور پڑ و سیو ں سے ملنے جلنے کیلئے بھی اس میں حصہ ہو ، بیو ی بچو ں کی تعلیم و تر بیت اور دعوت و تبلیغ کا بھی اس میں مو قع ہو اور کچھ لمحا ت خد اشنا شی اور محا سبہ کیلئے بھی خا ص کئے ہوں۔ اس طر ح منظم طو ر پر اپنی ضروریا ت کے مطا بق شب و رو ز کو تقسیم کیا جا ئے تو ذہنی الجھن ختم ہو گی اور کم و قت میں زیا دہ سے زیا دہ کا م ہو گا ۔وقت کی حفاظت کا یہ بہتر ین طر یقہ ہے جس کی طر ف حد یث مذ کو ر میں توجہ د لا ئی گئی ہے ۔
    وقت کے نظم وضبط کے پیش نظر ہی اسلام نے سا رے احکام کو وقت سے وا بستہ کیا ہے۔ اگر ان کو مقررہ وقت پر ادا نہ کیا جا ئے تو ان کا کو ئی وزن با قی نہیں رہتا جیسے فجر کی نماز اگر طلوع آفتاب کے بعد پڑھی جا ئے تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس کی اہمیت ختم ہو جا تی ہے چنا نچہ اس کو بعد میں ہزا ر بار بھی پڑھنے سے وہ اجر و ثواب حا صل نہیں کیا جا سکتا جو وقت پر پڑھنے سے مل سکتا تھا۔
     و قت کے نظم و ضبط کی طر ف اگر توجہ نہ د ی جا ئے تو وقت ضائع ہو تا ہے اور ضیا عِ وقت سے صر ف کا م کا ہی نقصا ن نہیں ہو تا بلکہ وقت ضا ئع کر نے وا لا بغیرکسی ار ادہ کے بہت سی برائیوں میں مبتلا ہو جا تا ہے۔ غیبت ، چغلی ‘بد نظر ی ، شکو ہ شکایت ، نخو ت و تکبر اور مبا ئل کے ذر یعے پھیلی ہو ئی بے حیا ئیوں میں ایسا ڈوب جا تا ہے کہ پھر دنیا و آخر ت کے کسی کا م میں اسے لطف نہیں آتا ،ہمیشہ وہ ذہنی انتشا ر کا شکا ر ر ہتا ہے ۔
    اس کے بر عکس جو لو گ وقت کی قد ر کر تے ہیں ان کے لئے سعا دت و بر کت کا در وازہ کھل جا تا ہے اور ہمیشہ وہ با مر اد اور کا میا ب ر ہتے ہیں ۔     یہ نہا یت قا بل افسو س ہے کہ جنوری کی پہلی تا ر یخ کو نئے سال کا جب جشن منا یا جا تا ہے توغیر مسلو ں کے سا تھ مسلم نو جو ان بھی مستی اور ر قص و سر ور میں شر یک ر ہتے ہیں ۔
    مسلما نو ں کے لئے سال کاآ غا ز تو محر م الحر ام سے شروع ہو تا ہے جس کی آمد پر ہما رے نو جو انو ں کو علم بھی نہیں ہو پا تا کہ وہ کب آیا اور کب گیا اور پھر کیانئے سا ل کی آمد جشن کا مو قع ہے ؟ نیا سال کیا آیا گو یا ایک سا ل و قت کا سرما یہ لٹ گیا اور سر ما یہ لٹنے پر خو شی نہیں منا ئی جا تی بلکہ یہ اپنے نفس کا محا سبہ اور آخر ت کو سنو ار نے کے لئے منصو بہ بندی کا مو قع ہے۔اس سے د نیا میں عزت اور کا میا بی حاصل ہو گی اور آخر ت کی ابد ی را حتیں بھی ۔
 

شیئر: