Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوچی سے روس نقصان میں چلا گیا

عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
ایسے وقت میں جبکہ روس شام میں موزوں امن معاہدے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے بشار الاسد کی افواج نے ایسے وقت میں ادلب پر93 فضائی بمباری کرکے آبادی کو تہہ و بالا کردیا۔ ہیلی کاپٹروں نے آبادی پر دھماکہ خیز بم گرائے ۔لبنانی حزب اللہ نے الغوطہ پر بمباری کی۔ یہ دمشق کا ایک محلہ ہے جہاں4لاکھ افراد کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں کیوں کر ہورہا ہے جبکہ متعلقہ فریق امن مسودے پر گفت وشنید کررہے ہیں۔ روسی ، ایرانی اورجارحانہ رویئے کے حمایتی ممالک اس خوش فہمی میں کیونکر مبتلا ہیں کہ شامی اپوزیشن کی نمائندہ مذاکرات کار ایسا حل قبول کرنے کی جرات کرسکیں گے۔ جس سے شامی عوام کی تباہی و بربادی اور خانہ بدوشی کا پیغام جاتا ہو۔
سوچی کے مذاکرات کار ہوسکتا ہے کہ یہ سوچ رہے ہوں کہ عسکری حملوں میں شدت سے اپوزیشن مجبور ہوکر انکا من پسند معاہدہ قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔ ایسا عام طور پر جنگو ںمیں ہوتا ہے۔ شام کی صورتحال اس سے مستثنی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ لڑائی سے فی الوقت اثر و نفوذ کے علاقوں کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ شامی اپوزیشن کے نمائندہ مذاکرات کار ایسے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کرسکتے جسے مقامی رہنماﺅں کی منظوری حاصل نہ ہو اور جس کی حمایت علاقائی ممالک اورحامی بڑی طاقتیں نہ کررہی ہوں لہذا شہروں اور شام کے قصبوں پر بمباری و گولہ باری سے امن مذاکرات ناکام ہونگے اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ 
عسکری حملوں میں شد ت سے زیادہ گھناﺅنی بات وہ ہے جو مختلف جہتوں سے مذاکرات کے مسودے کی بابت سامنے آئی ہے۔ مایوس کن ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجوزہ امن مسودہ مایوس کن ہے۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی جس سے شامیوں اور عالمی برادری کو یہ احساس ہو کہ سوچی امن مذاکرات میں شامل سرکاری فریق قیام امن کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ امن مذاکرات اہم ہیں۔ انکار ممکن نہیں بشرطیکہ معقول تجاویز پر مشتمل ہوں۔ سوچی مذاکرات کی ناکامی روس کی ناکامی ہے۔ اس سے لڑائی جھگڑے کا دائرہ وسیع ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ روسی اہم پتوں کے مالک ہیں۔ وہ چاہیں تو معقول حل حاصل ہوسکتا ہے۔ سارے شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ دمشق کے اتحادیوں کی یہ ضد کہ شامی اپوزیشن ہتھیار ڈال دے۔ مذاکرات کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ ایسا کرنے سے امن بحال نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: