Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوریدہ مقامات پر غیر ملکی سرمایہ کاری

منصور ماجد الذیابی۔ الریاض
  ماہرین اقتصاد کہتے ہیںکہ سرمایہ کاری کی بنیادی شرط یہ ہے کہ سرمایہ کاری ایسی جگہ ہی کی جاسکتی ہے جہاں سیاسی استحکام حاصل ہو اور امن و امان کا بسیرا ہو۔ میں ذاتی طور پرماہرین اقتصاد کے اس دعوے کی صداقت پر پورا یقین رکھتا تھا۔ میرے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ سرمایہ ِکار ایسے مقامات کو برداشت نہیں کرپاتا جہاں مسلح کشمکش چل رہی ہو۔ لڑائی جھگڑے قومی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 
سچی بات یہ ہے کہ میری سوچ اپنی جگہ، مشاہدہ اس کے بالکل برعکس بتا رہا ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار خانہ جنگی اور مشرق وسطیٰ کے علاقائی جھگڑوں سے زیادہ فائدہ اٹھارہے ہیں۔ جب جب صورتحال زیادہ خونریزی والی برپا ہوتی ہے تب تب غیر ملکی سرمایہ کار مختلف سودے کرکے زیادہ منافع کماتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار ایسے مقامات پر اپنی شرائط تھوپنے اور پابندیاں لگانے کی پوزیشن میں زیادہ ہوتے ہیں۔
دیکھنے میں آرہا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار ایسے علاقے کی تلاش میں سرگردا ں رہتے ہیں جہاں خونریزی ہورہی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر انکا کوئی حریف نہیں ہوتا۔ سب لوگ جنگوں میں مصروف ہوتے ہیں اور عسکری و اقتصادی طاقت سے ٹکر لینے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ عسکری اعتبار سے کمزور فریق غیر ملکی سرمایہ کار کو تعاون فراہم کرتا ہے اور اسکے ساتھ طویل المیعاد عسکری معاہدے پر راضی ہوجاتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار کو اپنے یہاں مختلف سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ 
مثال کے طور پرسرمایہ کار قطرں، ایران ، عراق، شام، لیبیا اور یمن وغیرہ ممالک میں سرمایہ لگا کر خوب سے خوب فائدہ اٹھارہے ہیں۔ سب لوگوں کو پتہ ہے کہ امریکہ برسہا برس سے خطے میں فوجی ا ڈے قائم کئے ہوئے ہے۔ امریکہ نے برسہا برس تک عراق میں سرمایہ کاری کی۔ اسے نقصان بھی ہوا مگر جنگ کے دوران اسے جتنا فائدہ ہوا وہ اسکے ابتدائی نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ امریکہ نے تیل کے سودے کئے اوربرآمد کے معاہدے کئے۔ اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ تیل کے بدلے خوراک کامعاہدہ کرکے غیر ملکی سرمایہ کار نے ہر لحاظ سے فائدہ اٹھایا۔ اس طرح عراقی دینار کی قدر کو بھاری نقصان بھی پہنچا۔
ایران پر ایک نظر ڈالیں ۔وہاں روسی ماہرین نے یورینیئم کی افزودگی میںحصہ لیا۔ قدامت پسند مذہبی پیشواﺅں اور شاہی نظام کے درمیان کشمکش سے لیکر ایرانی انقلاب کی آمد کے دور تک اس کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔ ایران اور روس بیلسٹک میزائل پروگرام کو جدید تر بنانے کے سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔ دفاعی نظام اور حملہ پروگرام میں ایک دوسرے کے شریک و سھیم بنے ہوئے ہیں۔ روس نے ایران میں فوجی سرمایہ لگا کر غیرمعمولی منافع کمایا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ایران کے ساتھ اسلحہ کے سودے کرکے منافع ہی منافع سمیٹا گیا۔
یہی اصول قطر پر بھی لاگو ہوتا ہے جہاں غیر ملکی سرمایہ کار عرب ممالک اور افریقی ممالک میں شوریدہ مقامات سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گیس، پٹرول اور سونے جیسے قدرتی وسائل اور نقدی لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی دہشتگردی کے خلاف جنگ کبھی جمہوریت کی بحالی کبھی اتحادیوں اور دوستوں کے تحفظ کے نام پر یہ چکر چلایا جارہا ہے۔
قطر کے ساتھ جیسے ہی خلیجی ممالک کا معمولی سا بحران پیدا ہوا فوراً ہی مغربی میڈیا اپنے انداز سے اس بحران سے فائدہ اٹھانے کیلئے دوڑ پڑا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ یہ نئی عالمی جنگ کے شعلے بھڑکانے والا بحران ہے۔انہوں نے قطری بحران کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ گویا یہاں سے تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہوسکتی ہے۔ یہ سارا چکر اسلئے چلایا گیا تاکہ اسلحہ کی فیکٹریاں اور اسلحہ کے تاجر اس بہانے عرب دنیا سے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ سکیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: