Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعوتِ دین کی ضرورت اوراس کا بہتر طریقہ

 اگر اہل علم میں سے کسی کو مباحثے کیلئے دعوت دی جائے اورعلم ناقص ہو تو وہ معذرت کریں اورشہرت کے لالچ میں اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بننے سے اجتناب کریں

* * *

* * * مولانانثار احمدحصیر قاسمی ۔ حیدرآباد دکن* * *
  دعوت دین انبیاء ورسل تک محدود نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری ہرزمان ومکان کے مسلمانوں اورعلماء پر ہے۔اللہ کے نبی فرماتے ہیں: ’’میری بات دوسروں تک پہنچائو اگر چہ ایک ہی آیت اورایک ہی بات ہو۔‘‘
    دوسری جگہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ نے تفصیل سے بین الاقوامی نظام ِامن وسیاست کے اصول کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: الا فلیبلغ الشاہد الغائب فرب مبلغ اوعی من سامع۔
    ’’جو لوگ موجودہیں وہ میری بات ان لوگوں تک پہنچادیں جو اس وقت موجود نہیں ، ہوسکتا ہے کہ جس تک یہ بات پہنچے خود سننے والے سے زیادہ اسے محفوظ رکھنے والا ہو۔‘‘
    ہر کوئی جانتا ہے کہ دعوت دین کے ذرائع و وسائل بے شمار ہیں۔مساجد وعبادت گاہیں دعوت کے اہم مراکز ہیں۔ غیرمسلموں میں یامغربی ملکوں میں دعوت کا طریقہ مسلم ملکوں کے طریقہ سے مختلف ہے۔ حالات ومقامات اورافراد کے اعتبار سے اس کی صورتیں جدا گانہ اختیار کی جاتی ہیں مگر ہر ایک کا مقصد اسلام کا پیغام اس انداز واسلوب میں دوسروں تک پہچاناہے جو دلوں پر اثر کرسکے، اس میں نرمی پیدا کرسکے، ان کی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرسکے۔ایساطریقہ اختیار نہ کیا جائے جس سے لوگ متنفر ہوں ،اسلام سے بدکیں اوراسے فرسودہ سمجھنے پر مجبور ہوں۔ہرزمانہ میں مسلمانوں نے اس فریضہ کو انجام دیاہے اسی لئے ہرزمانہ میں مذھب اسلام پھلتا اورپھولتارہا ،اس میں اضافہ ہوتارہاہے، اس میں کبھی کمی نہیں آئی۔
    ہمیں اس کا بھی بخوبی علم ہے کہ اسلام اوردین وایمان کے پھیلائو میں ذرائع ابلاغ کا بڑا اہم رول رہاہے۔ ان ذرائع ابلاغ کی صورتیں ایک نہیں بلکہ اس کی صورتیں بے شمار ہیں۔ جدید ٹکنالوجی کی دریافت اور اسکے معرض وجود میں آجانے کے بعد دعوت کا عمل پہلے   کے برعکس تبدیل ہوگیا ہے۔ آج انسان کے بس میں ہے کہ وہ ایک مضمون، ایک چھوٹی سی تحریر اوراپنی بات تحریر کرکے اسے ساری دنیا میں پھیلا دے کہ منٹوں میں دنیا کے گوشے گوشے کے لوگ اسے پڑھ لیں اوراس سے واقف ہوجائیں۔ آج ہم ہندوستان میں بیٹھ کر ایک بات تحریر کرتے اورلمحوں میں اسے مشرق ومغرب میں پڑھ لیا جاتاہے اورلوگ اس پر اپنے تبصرے اوراپنی آراء بھیجنے لگتے ہیں۔آج ان وسائل کی آمد کے بعد ہماری ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان ذرائع کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے دین اسلام کا پیغام اوراس کی دعوت اقوام عالم تک پہنچائیں اوراسکے خلاف اعدائے اسلام جو سرگرم ہیں ان کا حکیمانہ جواب دیں، ان کی سازشوں کو ناکام بنائیں اوراپنے دین ومذھب کا پوری بصیرت کے ساتھ دفاع کریں۔ ہم ایسے مسموم ذہنوں کی پیدا وار کا جواب دیں جس کے ذریعہ وہ ہمارے دین ومذھب کی صورت بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں اوراس کے لئے جھوٹ ودروغ گوئی، جعلسازی وگمراہ کن پروپیگنڈوں کا سہارا لے رہے اوربے بنیاد مناظر تیارکرکے پیش کررہے ہیںتاکہ دنیا کے عام باشندوں کے ذہن میں اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں منفی جذبات پیدا ہوں اوروہ اسلام سے قریب آنے کی بجائے اس سے دور ومتنفر ہوں۔ اس وقت سارے مسلمانوں خاص طور پر داعیانِ دین یاجو ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہیں ،کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی توجہ اس کے ذریعہ دعوت پر مرکوز کریں اوراسلام کے دفاع میں اپنی ذمہ داری نبھائیں اورمسلمانوں کو اپنا سلوک اوراپنی زندگی سچے مسلمانوں والا بنانے کی تلقین وتفہیم کریں۔
    ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ جدید ذرائع ابلاغ اُن اہم ترین وسائل میں سے ہیں جو مذھب اسلام کی دعوت کو پھیلانے اورپوری دنیا میں اسلام ومسلمانوں کے بارے میں پھیلائی جارہی غلط تصویر کو بہتر بنانے اورغلط فہمیوں کو دور کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ آج ہندوستان کی غیر مسلم آبادیوں میں ،اسی طرح مغرب کی یہودی ومسیحی آبادی میں طرح طرح کی باتیں اسلام کے بارے میں پھیلائی جارہی ہیں اورپوری قوت سے کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کے باشندے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔ اسلام کے بارے میں عام پروپیگنڈا کیا جاتا اورذہنوں میں ایک سوچ بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو آزادی نہیں دیتا بلکہ انہیں قیدوبند میں جکڑ دیتا اوران کی زندگی تنگ کردیتاہے جبکہ یہ بالکل خلافِ واقعہ ہے۔
    اسلام ہرچیز میں آسانیاں پیدا کرتاہے سختی نہیں۔ اسلام میں رکھ رکھائو میل ملاپ اوربڑی آزادی ہے۔اس جیسی آزادی کسی اور معتبر مذھب میں نہیں، مگر وہ لوگوں کو قانون پر عمل کراناچاہتا اوراسے قانون سے بالاتر نہیں گردانتا۔ اسے قانون کا پابند بناکر مکمل آزادی دیتاہے۔ہمیں بخوبی احساس ہے کہ دنیا میں دعوت دین کے فرائض کی انجام دہی میں ہم سے کوتاہیاں ہوئیں اورہورہی ہیں۔ہم نے اس فریضہ کو اس طرح انجام نہیں دیا جس طرح ہمیں دینا چاہئے تھا۔ہم اب بھی خواب غفلت میں پڑے اورکاہلی کا شکار ہیں جبکہ مغربی ذرائع ابلاغ اورخود ہمارے ملک میں آرایس ایس کے زیر اثر سارے ذرائع ابلاغ اس میں سرگرم ہیں۔ وہ رات ودن اسلام کو بدنام کرنے میں لگے ہیں۔ ان کی دعوت کا اسلوب منفی ہے۔وہ اپنی مذہبی بات تو کم ہی پیش کرتے ہیں کہ ان کے پاس پیش کرنے کی کوئی خاص چیز نہیں، مگر وہ اپنی بات منوانے اوراپنی دعوت عام کرنے کے لئے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیںمگر ہم ہندوستان میں بھی اورمغربی ملکوں میں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس شرکے اندر بھی خیر کا پہلو نکل رہاہے۔ان کی اس مہم کے نتیجہ میں لوگ اسلام کے مطالعہ کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ اس کا مطالعہ کررہے ہیں اورجب اس کی صداقت نظرآتی ہے تو بہت سے حلقہ بگوش اسلام بھی ہوجاتے ہیں۔
    اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم دعوت میں کوتاہی کو جاری رکھیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ اس کے لئے سرگرم ہوں، ہم عمدہ معیار اختیار کرتے ہوئے جدید وسائل کا استعمال کریں اورعالمی سطح پر اوراسکے معیار کے مطابق اسلام کا پیغام اقوام عالم تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس دعوت دین کو پھیلانے کی شروعات رسول اللہ نے کی تھی، صحابہ کرامؓ نے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، تابعین وتبع تابعین نے اس امانت کو بعد والوں تک پہنچایا اوران کے نقش قدم پر چلنے والے اہل علم آج بھی اس خدمت کو اپنی بساط کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔
    علمائے اسلام کا فریضہ ہے کہ وہ غیرمسلموں کو دین اسلام اوراسلامی تعلیمات سے روشناس کریں۔اقوام عالم کو اسلام کے پیغام کی وضاحت کے ساتھ ایمان وتوحید کی دعوت دیں۔ آج ہر ملک میں ہزاروں چینل ہیں جورات ودن اپنی نشریات پیش کرتے رہتے ہیں۔ آج کا زمانہ چینلوں، انفارمیشن اورانٹرنیٹ اورطرح طرح کی سائٹوں اوررابطے کے وسائل کا زمانہ ہے۔ان وسائل کا سہارا لے کر ہم اسلام کی حقیقت وحقانیت، اسلام کی تاریخ، اسکے عدل وانصاف، اس کی رواداری، اس کے عطاکردہ حقوق اوراس کے سنہرے ادوارِ حکمرانی کو لوگوں کے سامنے پیش کریں اورمغربی وصہیونی میڈیا کے پروپیگنڈوں کا جواب اقوام عالم کی زبان میں دیں۔انٹرنیٹ اوررابطے کے جدید وسائل نے دعوت کے کام کو ہمارے لئے آسان بنادیاہے، اسے غنیمت سمجھنا چاہئے۔اس کے ذریعہ ہم دنیا کے گوشے گوشے سے منٹوں میں ربط کرلیتے ہیں۔ہم ایک چیز تحریر کرکے جونہی پوسٹ کرتے ہیں لاکھوں کروڑوں لوگ اسے فوراًپڑھ لیتے ہیں۔ہمارے پڑوس کے لوگ جس طرح اسے دیکھتے مشرق ومغرب کے لوگ بھی اسی لمحہ اسے دیکھ لیتے ہیں۔ اس سہولت نے ہم پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ ہم اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اوراس میں ذرہ برابر کوتاہی نہ کریں۔علمائے دین کی اب ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے علم میں گہرائی پیدا کریں، مذاھب وادیان کا مطالعہ کریں، مختلف زبانوں میں لکھنا اوربولنا سیکھیں اورکتاب وسنت میں دسترس حاصل کرنے کے بعد بہتر سے بہتر اسلوب میں دین اسلام کی تعلیمات دوسروں کو سمجھانے اورمطمئن کرنے کی تربیت حاصل کریں۔ اس کے بعد ان جدید وسائل کو دعوت اسلامی کے مقصد سے استعمال کریں۔
     آج مثال کے طور پر ہم اگر اپنی اردو زبان میں دین کی باتیں لکھنے اوربولتے رہیں تو یہ بھی بلاشبہ اچھا عمل ہے، مگر اس کا دائرہ محدود ہے۔ہم اپنی بات اپنوں کو ہی کہہ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی بات دوسروں تک ان کی زبان میں پہنچائیں اورانہیں مطمئن کریں۔اس کے لئے ہمیں ہندی، تلگو، کنٹر، مراٹھا، کیرل، تامل، بنگالی، اسامی اورہرخطے کی زبان میں مہارت حاصل کرنا ہوگا۔ہر زبان کے داعیوں کی ایک کھیپ تیار کرنی ہوگی، جو ان زبانوں میں دعوت کا فریضہ انجام دے سکیں، اسلام کے خلاف پھیلائے جارہے منفی پروپیگنڈوں کا جواب دے سکیں، ہم باور کراسکیں کہ ہمارے دین ومذھب کی تعلیمات شخصی منافع ومفادات سے بالاتر ہیں، ہم سرمایہ داروں کی تسکین اورمردوں کی اپنی خانگی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کے مقصد سے عورتوں کو نیلام نہیں کرتے اورنہ انہیں ان ذمہ داریوں میں حصہ دار بناتے ہیں بلکہ اسلام ہر ایک کو اسکے دائرہ میں آزادی دیتا اورہرایک کے فرائض وواجبات اورذمہ داریوں وحقوق کو متعین کرتاہے، اوروہی اس کی ذات کیلئے مفید اوراس کی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ناقص علم رکھنے والے حضرات چینلوں کے مباحث اوردین اسلام کی ترجمانی کے لئے اسکرین پر آنے سے گریز کریں کہ انکی لاعلمی وجہالت کی وجہ سے ،ان کے ناروا طرز عمل اورآپے سے باہر ہونے کی وجہ سے اورلاکھوں انسانوں کی نگاہوں کے سامنے عدم علم کی وجہ سے لاجواب ہوجانے کی وجہ سے نہ صرف اسلام ومسلمانوں کی سبکی ہوتی بلکہ دعوت کے عمل کو سخت نقصان پہنچتاہے اس لئے اگر اہل علم میں سے کسی کو مباحثے کے لئے دعوت دی جائے اوران کا علم ناقص اورمعلومات کی کمی ہو تو وہ معذرت کریں اور علم میں گہرائی رکھنے والوں کی نشاندہی کریں کہ اس کیلئے انہیں مدعو کیاجائے۔ خود نمائی وشہرت کے لالچ میں خدا را اسلام کو بدنام کرنے اوراس کی رسوائی کا سبب بننے سے اجتناب کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    ’’ کہہ دیجئے کہ میری راہ یہی ہے، میں اورمیری پیروی کرنے والے اللہ کی طرف بلارہے ہیں پورے یقین اوراعتماد( یعنی دلائل کے ساتھ )اوراللہ پاک ہے اورمیں مشرکوں میں نہیں ہوں۔‘‘(یوسف108)۔

شیئر: