Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میں خوش مزاج ہوں اور تفریح کرنا پسند ہے: پہلی سعودی اوپیرا گلوکارہ سوسن البھیتی

لندن، برلن، ریاض اور العلا جیسے شہروں میں پرفارم کیا ہے (فوٹو: انسٹا گرام)
سعودی عرب کی پہلی باقاعدہ اوپیرا گلوکارہ سوسن البھیتی مملکت میں فن اور ثقافت کے نئے دور کی ایک مشہور آواز ہیں۔
سوسن البھیتی نے لندن، برلن، ریاض اور العلا جیسے شہروں میں پرفارم کیا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر سعودی خواتین فنکاروں کے لیے وہ راستہ کھولا ہے جو پہلے ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا۔
انہوں نے 2008 میں اوپیرا گائیکی کا سفر شروع کیا۔ اس کے بعد اطالوی، فرانسیسی، جرمن اور انگریزی زبانوں میں گانا سیکھ لیا، جس کی وجہ سے انہیں کلاسیکی موسیقی کے بہت سے مشہور گیت گانے کا موقع ملا۔
ان کی محنت اور صلاحیت آج بھی نوجوان سعودی خواتین کو متاثر کرتی ہے، اور البھیتی چاہتی ہیں کہ وہ اپنی پہچان اور مقام کو استعمال کر کے آنے والی نسل کی سعودی گلوکاراؤں کو اپنی صلاحیتیں پہچاننے اور آگے بڑھنے میں مدد دیں۔
عرب نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے گلوکاروں کو تربیت دینا بہت پسند ہے، چاہے وہ اوپیرا گلوکار ہوں، پاپ گلوکار ہوں یا عربی موسیقی کی مختلف اصناف سے تعلق رکھتے ہوں۔‘

البھیتی مملکت میں فن اور ثقافت کے نئے دور کی ایک مشہور آواز ہیں (فوٹو: انسٹا گرام)

’مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہ گلوکار اپنی آواز کو بہتر بنا رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہے ہیں۔ اس عمل کا حصہ بننا میرا شوق اور جذبہ ہے۔‘
 یہ بھی کہتی ہیں کہ طلبا کے ساتھ کام کرنے سے وہ مزید سیکھتی ہیں۔
’میں جس بھی گلوکار کو تربیت دیتی ہوں، اس سے اپنی صلاحیتوں پر غور کر کے کچھ نہ کچھ سیکھتی ہوں۔ دوسرے گلوکاروں کو متاثر کرنا اور ان کی فنی نشوونما میں مدد دینا مجھے ایک فنکار اور ایک لیڈر کے طور پر مزید بہتر بناتا ہے۔

سعودی گلوکارہ نے 2008 میں اوپیرا گائیکی کا سفر شروع کیا (فوٹو: ایکس اکاونٹ)

وہ بتاتی ہیں کہ’ وہ جلد ہی آواز کی تربیت کے بارے میں عربی زبان میں ایک کتاب شائع کریں گی، کیونکہ ان کے مطابق عربی میں گائیکی پر موجود مواد ابھی کافی نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ووکل کوچ اور اوپیرا گلوکارہ ہونے کے ناطے ان پر لازم ہے کہ وہ اس اہم موضوع پر ایک کتاب لکھیں۔
مختلف ممالک کے سفر نے بھی ان کی فنی نشوونما پر اثر ڈالا ہے، اور کچھ شہروں نے ان پر گہرا اثر چھوڑا، خاص طور پر روم، جہاں وہ تقریباً ایک سال مقیم رہیں۔

البھیتی کا کہنا ہے العلا سعودی ثقافت کی بہت مضبوط نمائندگی ہے(فوٹو: انسٹا گرام)

’وہ شہر تاریخ اور فنون، خاص طور پر موسیقی اور اوپیرا میں بہت مالا مال ہے۔ وہاں چلنا جہاں اوپیرا کے مشہور لوگ موجود ہیں، انہی اداروں میں سیکھنا جہاں انہوں نے سیکھا، ان کی کہانیاں جاننا اور ان کی چیزیں دیکھنا، اس نے میری اوپیرا کی دنیا کے ساتھ تعلق ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔‘
اپنے ملک میں، العلا ان کے لیے متاثر کن ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’العلا سعودی ثقافت کی ایک بہت مضبوط نمائندگی ہے اور یہ فنونِ لطیفہ سے بھرپور ہے۔ اس میں ثقافت اور فن، ورثہ اور جدیدیت کا ملاپ میری آرٹ کے بارے میں عمومی سوچ پر واقعی گہرا اثر ڈال گیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کا پرسکون انداز نلوگوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ ’بہت سنجیدہ اور پرسکون‘ ہیں۔ تاہم، البھیتی کے مطابق یہ تاثر تھوڑی سی غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔

 اطالوی، فرانسیسی، جرمن اور انگریزی زبانوں میں گانا سیکھا ہے ( فوٹو: انسٹا گرام)

سوسن البھیتی نے کہا ’میں چاہتی ہوں لوگ جانیں کہ میں بھی کسی عام نوجوان سعودی عورت کی طرح ہوں۔ میں خوش مزاج ہوں اور مجھے تفریح پسند ہے اور مجھے رقص کرنا بہت پسند ہے۔‘
’میرے لیے ایک بہترین دن، پرفارم کرنے یا ریہرسل کے علاوہ وہ ہوتا ہے جب میں اپنے پیاروں کے ساتھ اچھا وقت گزاروں ۔۔۔اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا، دوستوں کے ساتھ باہر جانا، اپنے کتے کے ساتھ چلنا۔۔۔ میرا کتا ایک پیارا مالٹیز شی زو ہے جس کا نام لکی ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کے پاس وقت گزارنے کے لیے ایک بہت بڑا خاندان ہے۔


البھیتی مملکت میں فن اور ثقافت کے نئے دور کی ایک مشہور آواز ہیں۔(فوٹو: انسٹا گرام)

انہوں نے بتایا’میں ایک بڑے خاندان سے ہوں اور سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہوں۔ کچھ بہن بھائی بھی ابتدا میں موسیقی میں اچھے تھے۔ میں کہہ سکتی ہوں کہ میں اپنے خاندان میں سب سے زیادہ فنکار ہوں، لیکن میری ایک بہن اور ایک بھائی کو بھی یہ ہنر آتا ہے۔ میں نے ان سے سیکھا۔ وہ زندگی میں دوسرے شعبوں میں چلے گئے لیکن میں نے موسیقی کو جاری رکھا۔‘
یہ فیصلہ اب انہیں ضرور فائدہ دے رہا ہے، کیونکہ سعودی عرب کے رہنما اپنے ملک میں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر زور دے رہے ہیں، اور سوسن البھیتی کو اس میں ایک اہم شخصیت کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں انہیں اس بات کا اعزاز ملا جب انہوں نے طارق عبدالحکیم کے ساتھ یوم الوطنی کی تقریب میں حصہ لیا اور اپنے شہر جدہ کے تاریخی علاقے البلد میں سینٹر کے احاطے میں قومی ترانہ پیش کیا۔

انہیں طارق عبدالحکیم کے ساتھ یوم الوطنی کی تقریب میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے ( فوٹو: انسٹا گرام)

ان کے مطابق ’یہ خاص تھا کیونکہ طارق عبدالحکیم سعودی موسیقی کے آغاز کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ ایسے نام کے ساتھ کام کرنا میرے لیے بہت اہم بات تھی۔
البھیتی کے لیے سعودی عرب کے آنے والے ثقافتی منصوبوں میں سب سے دلچسپ منصوبہ کنگ سلمان پارک میں رائل اوپیرا ہاؤس ہے۔
وہ کہتی ہیں  کہ ’میں ابھی تک اس میں شامل نہیں ہوئی کیونکہ یہ منصوبہ ابھی تعمیر کے مراحل میں ہے۔ وہ اس کے افتتاح کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہیں، جیسا کہ دنیا بھر کے بہت سے لوگ کر رہے ہیں۔‘

البھیتی کا ماننا ہے کہ رائل اوپیرا ہاؤس کی اہمیت بہت زیادہ ہوگی۔(فوٹو: انسٹا گرام)

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے یہ خوشخبری سنی کہ نیو یارک کے میٹروپولیٹن اوپیرا کے ساتھ تعاون ہوگا، جہاں اوپیرا ہاؤس کے کھلنے کے بعد وہ اپنے پروگرام پیش کریں گے۔
البھیتی کا ماننا ہے کہ رائل اوپیرا ہاؤس کی اہمیت بہت زیادہ ہوگی۔
یہ فنون اور ثقافت کا ایک بہت اہم مرکز ہوگا۔ یہ نہ صرف اوپیرا جیسی نئی قسم کی فنون سعودی عرب میں متعارف کرائے گا بلکہ بہت سے فنکاروں اور فنون کے مختلف شعبوں کے لیے بھی ایک مرکز ہوگا۔ یہ معاشرے کو نئی فنون سے روشناس کرائے گا اور آنے والے فنکاروں کو موقع دے گا کہ وہ اپنی تخلیقات پیش کریں، چاہے وہ کسی بھی نئی صنف کی فنون لانا چاہیں۔

 

شیئر: