Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی کھیتی باڑی پر غیر ملکیوں کا قبضہ

 خالد العضاض ۔ الوطن
سعودی عرب کی زرعی مارکیٹ او رزرعی محصولات کی مارکیٹنگ ایک طرح سے سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کا بڑا نام ہے۔ سعودی شہری غیر ملکی کارکنان کو کسی ایک موسم یا ایک سے زیادہ موسم کیلئے اپنے زرعی فارم ٹھیکے پر دینے کا وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مختلف ممالک کے غیر ملکی زرعی فارموں اور محدود رقبے والے زرعی استراحات پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ معمولی رقم کے بدلے سعودیوں سے انکے زرعی فارم ٹھیکے پر حاصل کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر نخلستان کے مالک ایک سعودی شہری نے اپنے باغ کے ایک موسم کی فصل غیر ملکی کارکن کو 60ہزار ریال میں ٹھیکے پر اٹھادی۔ یہ غیر ملکی کھیتی باڑی کے ویزے پر نہیں بلکہ معمار کے ویزے پر مملکت آیا تھا۔ باغ سے تقریباً35ٹن کھجور پیدا ہورہی تھی۔ ایک ٹن کی قیمت 4سے 12ہزار ریال تھی۔ غیر ملکی نے ایک موسم میں ایک فصل سے 3لاکھ ریال کمائے۔
2016 ءکی ایک اخباری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”الاحساءکے ایک کاشتکار نے بتایا کہ انکے یہاں غیر ملکی کارکن نے کاشتکار کی جگہ لے لی ہے۔ سعودی کاشتکار کا تعلق سہولتوں کی فراہمی سے ہے اور بس۔ باغ سے کھجوروں کو کارخانے تک پہنچانا اور مارکیٹ لیجانا یہ سارے کام( الف سے ی) تک غیر ملکی کررہا ہے۔غیر ملکی کارکنوں کی دخل اندازی بڑھ جانے پر سعودی کاشتکار تدریجی طور پر منظر سے غائب ہونے لگے۔ اب مملکت میں زراعت کا پیشہ رفتہ رفتہ تارکین کے قبضے میں آگیا ہے۔“
مذکورہ رواج کی وجہ سے سعودی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ غیر ملکیوں کو فصلوں کا ٹھیکہ دینا غیر قانونی عمل ہے۔ اسکے اور بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ غیر ملکی ٹھیکیدار زرعی فارموں اور زرعی استراحات میں غیر قانونی تارکین کو رہائش کی صورت میں پناہ گاہیں مہیا کررہے ہیں۔
کھجوروں کے پہلو بہ پہلو سبزیوں اور پھلوں کی زراعت کا کام بھی غیر ملکیو ںکے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔کیڑے مار دواﺅں کے چھڑکاﺅ کے عنوان سے غیر ملکی کارکن زرعی فارموں کو نقصان پہنچا کر اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔صورتحال تشویشناک ہے۔ غیر ملکی کارکن زرعی زمینوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے حفظان صحت کے ضوابط بھی پامال کررہے ہیں۔
سعودی عرب میں سبزی منڈیاں مختلف ملکوں کے تارکین وطن سے اٹی پڑی ہیں۔ وزارت محنت و سماجی بہبود اس شعبے کو منظم کرنے کیلئے کوئی خاص کارروائی نہیں کررہی ۔ ان دنوںسبزی فروش کا پیشہ ہر اس انسان کےلئے کھلا ہوا ہے۔ کوئی بھی اپنی شرطیں منوا سکتا ہو۔
وزارت محنت و سماجی بہبود سبزی فروش کے لئے حفظان صحت کی شرائط کی پابندی سے بھی آنکھیں موندے ہوئے ہے۔
بازاروں میں سبزیوں کی دکانیں بلاقید و بند کے چل رہی ہیں۔ کسی طرح کی کوئی نگرانی میونسپلٹی کی جانب سے کی جارہی ہے نہ ہی بلدیاتی کونسلوں کے اہلکار توجہ دے رہے ہیں۔ اکثرسبزی فروشوں کی دکانیں بغیر اجازت نامے کی ہیں۔ حفظان صحت کے سرٹیفکیٹ سبزی فروشوں کے پاس تک نہیں۔ زیادہ تر کام کرنے والے غیر ملکی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف تو میونسپلٹیاں اوربلدیاتی کونسلیں اپنا کردارادا کریں ۔ دوسری جانب وزارت ماحولیات و پانی و زراعت اپنا فرض ادا کرے اور تیسری جانب وزارت محنت و سماجی بہبودزرعی محصولات کی منڈی کو منظم کرنے کے سلسلے میں واضح اور ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے۔
سعودی مانیٹری اتھارٹی( ساما) نے چند برس قبل تمام سعودی بینکوں سے کہا تھا کہ وہ ایسے تمام غیر ملکی کارکنان کے کھاتے منجمد کردیں جن کا بینک بیلنس انکے پیشوں سے ہونے والی انتہائی آمدنی سے زیادہ ہورہا ہو۔ اس پابندی پر عمل درآمد کی بدولت سعودیوں کے نام سے غیر ملکی کاشتکاروں اور ٹھیکیداروں کو لگام لگائی جاسکتی ہے۔
عبدالحمید العمری نے ایک مضمون قلمبند کیا تھا۔ اس کے اقتباس پر ہی اپنا کالم ختم کرنا چاہوں گا۔ وہ لکھتے ہیں :
”سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کی آفت کی مزاحمت ٹھوس بنیادوں پر لازم ہے۔ اس حوالے سے اب تک کئے جانے والے جائزوں ، رپورٹوں اور سرکاری اداروں کی معلومات سے کام لینا ہوگا۔ اس قسم کا کاروبار زیادہ تر ریٹیل اور روایتی اشیائے صرف تک محدود ہے۔ پھلو ں و سبزیوں و زرعی اشیاءکا کاروبار، سونے اور قیمتی پتھروں کی تجارت ، مویشیوں کا کاروبار ، تعمیراتی سرگرمیاں ، اشتہارات ، الیکٹرانک آلات ، کمپیوٹر ، بقالے اور چھوٹی چھوٹی تجارتی دکانیں نیز حجاموں، پلمبرز ،ٹیلرنگ شاپ اور الیکٹرانک آلات کی دکانیں غیر ملکیوں کے قبضے میں ہیں۔ تارکین، سعودیوں کے نام سے مذکورہ کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ حقائق طے شدہ ہیں۔ انکی بنیاد پر جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔“
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: