Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک مرد نے تیزاب پھینک کر برباد کردیا

ہم حماد خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوںنے  ہمارے اصرار پر پہلی مرتبہ کسی میڈیا کو انٹرویو دیا ہے،حماد خان نے تیزاب سے متاثرہ 2 بچوں کی طلاق یافتہ ماں سے شادی کی۔اس انٹرویو میں کنول حماد سے بھی گفتگو کی گئی ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ معاشرے میں حماد جیسے ’’حقیقی ہیروز‘‘ کو سامنے لایا جائے جنہوں نے پوری دنیاکی مخالفت کے باوجود مظلوم اور مجبور لڑکی کا سہار ا بننے کا فیصلہ کیا اور ثابت قدم رہے
*********
تیزاب سے ایسے زخم آئے کہ حقیقی رشتے دار بھی قریب نہ آتے تھے ،مگر حماد نے شادی کرلی،کنول،  میں نے سوچا یہ حادثہ  میرے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ،اس میں کنول اور بچوں کا کیا قصور،حماد خان،  کنول 2بچوں کی ماں او رطلاق یافتہ بھی تھی،حماد نے شادی کا فیصلہ کیا تو خاندان میں بھونچال آگیا،لالچ سمیت کئی الزامات لگادیئے گئے
*********
انٹرویو:      ۔مصطفی حبیب صدیقی۔کراچی
آپ نے پاکستانی وہندوستانی فلموں میں ایسے درجنوں ہیروز دیکھے ہونگے جنہوںنے بڑی سے بڑی قربانی دے کر ہیروئن کو حاصل کرلیا مگر حقیقی زندگی کے ہیروز کم ہی دیکھے ہونگے۔حماد خان حقیقی زندگی کا ہیرو ہے،جس نے کنول سے اس وقت شادی کا فیصلہ کیا جب پوری دنیا اسے دھتکار رہی تھی۔کنول کی پہلی شادی کم عمری میں ہوجاتی ہے ،مگر شوہر شرابی اور فراڈ نکلتا ہے۔2بچوں کے بعد طلاق ہوجاتی ہے اور پھر حماد کنول کو شادی کی پیشکش کرتا ہے۔کنول بتاتی ہے کہ میرے پہلے ہی 2بچے ہیں مگر حماد اپنے ارادے کا پکا ہوتا ہے۔ابھی شادی کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں کہ کنول پر ایک اور آفت ٹوٹ پڑتی ہے اور نامعلوم افراد  اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتے ہیں۔کنول کے سگے رشتہ دار کہتے ہیں کہ کیوں بچ گئی اس سے تو بہتر موت تھی مگر حماد اس کا سہارا بنتا ہے اور پھر اسے دوبارہ زندگی کی طرف لاتا ہے۔آج ماشاء اللہ اس جوڑے کی بھی2بچیاں ہیں جبکہ کنول کے پہلے شوہر سے بھی بیٹا اوربیٹی ہیں جنہیں حماد اپنے بچوں کی طرح پال رہا ہے۔آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ حماد کی عمر30سال ہے جبکہ اس کی بیوی کے پہلے شوہر سے پہلے بیٹے کی عمر19سال  ہوچکی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
س:  پہلی شادی کب ہوئی ،کن وجوہ پر طلاق ہوئی  ؟
کنول حماد:   والد نے 2شادیاں کی تھیں  ۔ والد کی ریٹائرمنٹ پر امی کو فکرہوئی کہیں یہ ریٹائرمنٹ کی ساری رقم  ختم نہ کردیں اسی خوف سے والدہ نے ہم بہنوں کی شادی کیلئے ابو سے رقم  لے لی ۔اس وقت میں نویں اور بڑی بہن میٹرک میں تھیں ۔امی، ابو نے باہمی رضامندی  سے میری شادی کردی۔ اس وقت میری عمر 15اورسابق شوہر ریحان کی عمر 25سال تھی  ۔ سسرال  والے اچھے تھے لیکن ریحان  بری عادتوں میں  پڑگئے ۔  شراب نوشی اور لوگو ں سے فراڈ کرنا خاص طوپر غریبوں کو لوٹنا  شروع کردیاتھا ۔ریحان  باتوں کے ماہر تھے وہ سامنے والے کو شیشے میں اتار لیا کرتے تھے جس کے باعث لوگ  ان کے فراڈ میں آجاتے  تھے ۔ وہ اپنے ساتھ پستول رکھتے تھے جس سے  مجھے اور بچوں کو ڈراتے  اورخوف  میں رکھتے  تھے  اورپیسے بھی مانگتے تھے نہ دینے پر دھمکیاں دیتے تھے۔ 
س:     طلاق کے وقت عمر کتنی تھی  ؟
کنول حماد:   21         سال  ،اس وقت 2بچے  تھے ۔ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔پڑھائی  جاری تھی۔ اسی دوران میں نے گریجویشن کیا ۔ریحان طلاق دینے کے بعد طلاق کے کاغذات نہیںدے رہے تھے۔والدہ کے پاس  رہتے ہوئے  ملازمت کرلی کیونکہ والدہ  تنہارہتی تھیں۔  بچوں کی بھی ذمہ داری تھی ۔ سوچتی تھی کہ طلاق کے بعد زندگی عذاب  ہوجائے گی مگر صحیح معنوں میں طلاق  کے بعد زندگی میں سکون آیا  ۔جتنے بھی جاننے والے تھے کسی نے بھی اس طلاق کا افسوس نہیں کیا بلکہ یہی کہا  شکر ہے تمہاری جان چھوٹ گئی ۔
س:   تیزاب پھینکے کا واقعہ کس طرح ہوا اس کے پیچھے کون لوگ تھے؟
کنول :سابق شوہر اکثر کہتے تھے طلا ق نہیں ہوئی ، میں نے علماء سے معلوم کرلیا ہے تم گھر واپس آجائو مگر انہوںنے ایک مرتبہ نہیں کم ازکم10،12مرتبہ مجھے طلاق دی اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی زیادتیوں سے میں تنگ آچکی تھی اور واپس نہیں جانا چاہتی تھی ۔مجھے بینک میں  اچھی ملازمت مل گئی تھی  ۔بچوں کو سنبھال لیاتھا ۔ اس دوران حماد سے ملاقات ہوئی جو میرا بہت خیال رکھنے لگے اور حماد ہی کے دیئے گئے  اعتماد  کے سہارے اپنے سابقہ شوہر کو جواب دینے کی ہمت آگئی تھی ۔واقعہ والے دن ریحان  نے فون کیا   اور کہاتمہیں ایسا تحفہ دوںگا زندگی بھر یاد رکھوگی ۔اسی دن مجھے ایئرپورٹ پر ملازمت کے حوالے ٹیسٹ کیلئے  جانا تھا ۔صبح  5بجے دروازے پر دستک ہوئی ۔میں نے لکڑی کا  دروازہ کھولا مگر لوہے کا گیٹ نہیں کھولا۔  ایک لڑکا کھڑاتھا۔ ہاتھ میں گتے کا بکس تھا ۔اسکے پیچھے گلاس پکڑاہواتھا ۔ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے ہاتھ  میں کوئی ڈبہ ہو۔ اس  نے کہامس کنول، میں نے کہا  جی، کہاآپ یہ پارسل  لے لیں  ،میں انہیں ڈاکو سمجھی ،میں  نے کہا چلے جاؤ کوئی پارسل نہیں چاہیے  تو انہوں نے  بہت زور سے تیزاب  پھینکا   ،میں پلٹی تو دوبارہ پھینکا ۔امی پیچھے کھڑی تھیں  ان پر بھی کچھ  چھینٹے آئے ۔ میری آنکھیں تیزاب جانے  سے بند ہوگئی تھیں ۔میری آخری کال حماد کو ہوئی تھی ،میں نے اندازے سے موبائل اٹھاکر ری ڈائل کردیا ۔حماد نے فون اٹھایا تو میں نے  صرف اتنا کہا  میں مرگئی۔  اس سے زیادہ مجھ سے بات نہیں کی گئی۔حماد اوران کے بہن بھائی فوری آگئے اورمجھے اسپتال لے کر گئے۔جہاں تیزاب لگا  اس جگہ جسم میں گہرے  زخم   پڑگئے   تھے اور آنکھوں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے گولی ماردی ہو۔ حالت کسی کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔
س: تیزاب کے واقعہ کے بعد لوگوں کا رویہ کیسا رہا ،کس نے ساتھ دیا اور کس کا اصل چہرہ سامنے آگیا؟
کنول :  والدین توساتھ کھڑے تھے۔علاج بھی چل رہا تھا۔بھائی سعودی عرب میںتھے۔ ان کوبتایا نہیںکہ پریشان ہوجائیں گے۔ان سے کہا کہ ایک چھوٹا ساحادثہ ہوگیا ہے۔خالہ   نے مجھے دیکھ کر کہا’’ اللہ یہ کیا ہوگیا ہے   اس سے بہتر تھا تمہیں گولی ماردیتے‘‘۔رشتے دار ہمت دینے کے بجائے مایوس کرتے رہے  یہ تو ختم ہوگئی ہے۔  اس کا کیا ہوگا اس رویے  سے میں بہت دلبرداشتہ ہوئی   ۔ مایوسی نظر آتی تھی۔اسپتال میں دل چاہتاتھا کہ کھڑکی سے کود کر خودکشی کرلو ں  اور 3مرتبہ کوشش بھی کرچکی تھی لیکن حماد میرے ساتھ ایسے رہتے تھے جیسے  پولیس والے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔حمادبہت حوصلہ دیتے تھے کہ کچھ بھی نہیں ہوا  سرجری سے سب ٹھیک ہوجائے گا  ۔
س: این جی او نے آپ کو  سہار ا دینے  میں کیا کردار ادا کیا؟
کنول :  20روز  سے سول اسپتال میں علاج چل رہا تھا۔اس وقت سرجری نہیں ہوئی تھی صرف پانی ڈال کر پٹی  ہورہی تھی۔این جی او ڈپلیکس ’’ اسمائل اگین‘‘ کی  مسرت مصباح   اسپتال میں آئیں  پھر انہوں نے میرا علاج کرایا۔
  س : حماد: جس وقت آپ  نے کنول سے  شادی کا فیصلہ کیا گھر اور خاندان  والوں کا کیا رویہ تھا  ؟
حماد:گھر والے شادی کیلئے تیار نہیں تھے۔گھر میں سب سے بڑ ا  ہوں  ،بہنیں اور بھائی  ہیں ۔ والدین کہتے تھے کہ تم  طلاق یافتہ خاتون سے شادی کروگے تو کل جب  تمہاری بہنوں کے رشتے آئیں گے  لو گ سوال کریں گے ہم لوگوںکو کیاجواب دیں گے۔گھروالوں کی بات بھی صحیح تھی۔ اس وقت کنول کے ساتھ تیزاب والا واقعہ نہیں ہواتھا ۔اس وقت تک گھروالوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا ۔کنول کے 2بچوں کا  معلو  م تھا ۔  میرا خیال تھا کہ کنول کا گھر میںآنا جانا ہوگاتو معاملات بہتر ہوجائیں گے اور مناسب وقت میں  بتادوں گا۔کنول کا بھی کہنا تھا ایک اچھی نوکری کی تلاش  میں ہوں وہ مل جائیگی  تومعاشی معاملات بھی بہتر ہوجائیں گے پھر شادی کرلیں گے ۔اتفاق  سے جس دن ان کو  ایئر ہوسٹس کیلئے آفر  لیٹر ملناتھا اسی رات کنول کے ساتھ تیزاب  پھینکنے کا واقعہ ہوگیا۔
  اردونیوز: آپ کو معلوم تھا کنول کی طلاق ہوگئی   ہے او ر 2بچے ہیں ۔اس کے بعد یہ واقعہ ہوگیا   پھر بھی آپ نے شادی کا فیصلہ کیا ۔ کیاوجوہات تھیں؟
حماد:  بچوں کا پتہ چلا  تو میں سوچتا تھا ان میں بچوں کا توقصور نہیں ۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ خواتین کو ہی قصور  وار سمجھا  جاتا ہے  چاہے غلطی مردکی ہی کیوں نہ ہو جبکہ کنول  کے کیس میں معاملہ الٹا تھا۔ اس میں قصور مرد کا تھا ۔ اپنے گھروالوں  سے بات کرتا تو وہ مان جاتے کیونکہ ہم نے بچپن سے جوانی تک  اپنی فیملی اور والدین کولوگوںکے بچے سنبھالتے دیکھا ہے۔ میں اپنے والدین کو سماجی کام کرتے ہوئے دیکھتا تھا اسلئے مجھے اندازہ  تھا  مجھے بھی ان بچوں کے ساتھ رہنے میں پریشانی نہیں ہوگی لیکن میں اس وقت کا انتظار کررہا تھا کہ اس قابل ہوجاؤں کہ ان کو سنبھال سکوں اور بہنوں کی بھی شادی  ہوجائے پھر میں شادی کرلوں گا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ واقعہ ہوجائے گا۔پھر مجھے بار باریہ خیال آتا رہا  میں نے اتنا انتظار کیوں کیا  اس واقعہ سے پہلے ہی شادی کرلیتا ۔  واقعہ کے بعد دوبارہ والد سے بات کی کہ میں کنول سے شادی کررہا  ہوں  اس کے سوا میرے پاس کوئی راستہ نہیں کیونکہ اس صورت حال میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا تھا۔کنول کو اس وقت میر ی سخت ضرورت  ہے میں اس کو اس حال میں نہیں چھوڑسکتا  ۔واقعہ 2007ئمیں ہوا اس کے 4سال بعد شادی کرلی تھی۔  اس دوران کنول کی کئی قسم کی سرجریز چل رہی تھیں ۔
کنول :ہماری شادی ’’اسمائل اگین‘‘ نے ترتیب دی۔ انہوں نے ہی میرے علاج  میں بہت مدد کی ۔علاج کے دوران  حماد  میری بہت تیمار داری کرتے  اورفزیوتھراپی کراتے تھے ۔لوگ ساتھ تو دیتے نہیں تھے مگر انہوںنے باتیں بنانا شروع کردی تھیں کہ غیر مرد کیوں ہاتھ لگاتا ہے جبکہ ہمیں بھی اچھا نہیں لگتا تھا کہ نامحرم ہیں،  جس کے بعد ہم نے اسپتال  ہی  میں خاموشی سے نکاح کرلیاتھا تاکہ لوگوں کی زبان بند ہوجائے  صرف میری والدہ او ر ایک 2 قریبی رشتے داروں کو معلوم تھا ۔ حمادکے والدین کو   نکاح کاعلم نہیں تھا۔
حماد: کنول کی حالت ایسی نہیں تھی میں اس کو تنہا چھوڑتا اور لوگوں کی باتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی  پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ اسپتال ہی میں  نکلا ح کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالی سار ے معاملات  بہتر جانتا ہے  لوگ تنقید بہت کرتے تھے اس لیے ہم بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ شادی توکرنی ہے تو نکاح کرنے میںکیا حرج ہے۔سرکاری اسپتالوں میں فزیو تھراپی اتنی آسانی  سے نہیں ہوتی زیادہ تر اپنے طور پر ڈریسنگ کرنی ہوتی  ہے ۔دن میں  4 ،4 مرتبہ ڈریسنگ ہوتی تھی اورکنول کی حالت ایسی تھی کوئی بھی ان کی  مدد کیلئے قریب نہیں آتاتھا ۔
کنول : میری آنکھ سے خون بہتا تھا  ،چہرے سے کھال اترگئی تھی اور سوراخ ہوگئے تھے ،بازو اور جسم پر جہاں جہاں تیزاب تھا وہاں گہرے زخم ہوگئے تھے اور گوشت  جھڑرہاتھا  یہ  حالت بڑی ہی اذیت  ناک تھی  جو میں بیان نہیں کرسکتی ۔متاثرہ حصے کے تمام ٹشوز مردار ہوگئے   ۔حماد ہی کی ہمت تھی جو میری ڈریسنگ کرتے تھے ۔
حماد : کنول کی فیملی  میں صرف ان کی والدہ ان کے پاس تھی  ۔ان میں اتنی ہمت نہیں تھی جو ان کی ڈریسنگ کرسکتیں۔ڈر تو مجھے بھی لگتا تھا لیکن ایک جذبہ تھا کہ مجھے کنول کواس حالت میںاکیلا نہیں چھوڑنا   اور میں کوشش کرتا رہا ۔ہمت نہیں ہاری۔ اللہ کی ذات سے بہت مطمئن تھا کہ ایک دن کنول صحیح ہوجائے گی اور ہم ایک اچھی زندگی گزار سکیں گے۔ اللہ کے فضل سے آج ہم اچھی زندگی گزارہے ہیں ۔ خاندان میں بھی ہرجگہ آنا جا ناہوتا ہے ۔میں کنول کو ہر تقریب میں لیکر  جاتاہوں تاکہ ان کاڈرخوف  نکلے اور خود اعتمادی سے زندگی گزاریں۔
س:  خاندان میں نکاح کا کتنے عرصے بعد بتایا؟
حماد :  خاندان میں کسی کویہ نہیں بتایا تھا کہ پہلے ہم نکاح کرچکے ہیں۔2011ء  میں سب کے سامنے دوبارہ نکاح کرکے شادی کی۔ اس  میں این جی او’’ اسمائیل اگین‘  نے شادی کا ایک  خاص انتظام کیا تھا جس سے سب کو معلوم ہوگیا ہماری شادی ہوگئی ۔
س: جب  تیزاب کا واقعہ ہوگیا اس کے بعد والدین سے کہا میں کنول سے شادی کرنا چاہتا ہوں توکیارد عمل تھا؟
حماد: اس وقت والد صاحب کو کچھ سمجھ نہیں آرہاتھایہ کیا کہہ رہا ہے ۔کہا مجھے کچھ سوچنے کا موقع دو۔ شاید میں بھی انکی جگہ پر ہوتا تویہی  سوچتا۔ وہ سوچتے تھے کہ سب سے بڑا بیٹا ہے چھوٹی بہنیں بھی ہیں   یہ ایساکیوں کررہاہے کیاوجوہ ہیں ؟کوئی دھمکی تو نہیں  یا اس کی شادی کے بعد ہمیں دھمکیاں  ملنا شروع نہ ہوجائیں۔ بہنوں کی شادیوں میں مسائل ہونگے۔لوگوں کو کیا بتائیں  گے؟ہمیں شادی کا فیصلہ کرنے پر دھمکیاں بھی دی گئیں ۔ایک دن کنول کو کسی خاتون  اور مجھے کسی مرد  نے اور میرے گھر پر بھی ایک ہی دن فون کرکے دھمکیاں دیں ۔والد کو کہا کہ آپ کا بیٹا باز نہ آیا تو،آپ کی بیٹیاں ہیں ان کے ساتھ بھی وہی کریںگے جو کنول کے ساتھ کیا  ۔والد کو بھی دھمکیاں تھیں۔ ان کے خدشات اپنی  جگہ صحیح تھے اور میرے معاملات ایسے تھے میں بھی کھل کر ان کو بیان نہیں کرپارہاتھاکہ میںکن مسائل میں ہوں۔بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں  جن میں  والدین اور بچوں کے درمیان ایک فاصلہ ہوتا ہے جس میں بچے دوستانہ  ماحول میں اپنی پریشانیاں والدین  سے شیئر نہیں کرپاتے۔میں سمجھتاہوں  یہ فاصلہ نہیں ہونا چاہے تاکہ بچے اپنی پریشانیاں کھل کر والدین سے شیئر کرسکیں  ۔بہرحال والدکا اس وقت جواب مختصر تھا کہ جب تم نے سب طے کرہی لیا ہے تو کیاکرسکتے ہیں۔مجھے یہ توقع تھی کہ والد صاحب سے بات ہوگئی  ہے اب گھروالے میری شادی  میں آجائیں گے ۔لیکن شادی میں کوئی نہیں آیا۔2،3دوست تھے بھائیوں سے توقع تھی وہ بھی نہیں آئے۔ اس  وقت گھروالوں کی بڑی کمی محسوس ہوئی ۔والد صاحب بھی بہت پریشان تھے ۔امی کا کہنا تھا  تم اپنے ابو سے بات کرلو۔
س:  حماد آپ نے بڑا قدم اٹھایا ،گھروالوں کی ناراضگی    برداشت کی ،معاشرے  نے بھی اچھا برتاؤ نہیںکیا ،لوگ کیا کہتے تھے؟
حماد:لوگوں کے مختلف تاثرات ہوتے تھے جیسے خاندان میں  یہ بات ہورہی تھی اس لڑکے نے اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بننا تھا ان کی کفالت کرنی تھی  اس وقت ان کو چھوڑدیا۔ یہ ذمہ داری  سے بھاگ گیا اور شادی کرلی ۔ہم 6 بہن بھائی ہیں میں سب سے بڑاہوں۔لوگوں کو  ان ساری پریشانیوں کا اندازہ نہیںتھا جو میں برداشت کررہاتھا۔اس وقت  والدین اگر میرا ساتھ دیتے  تو شاید ہم خاندان اور معاشر ے  کو حقیقت بتاسکتے تھے لیکن بدقسمتی سے والدین بھی ساتھ کھڑے نہیں ہوئے جس سے لوگوں کو اور موقع مل گیاکہ حماد  نے  ایک لڑکی کی خاطر اپنے بوڑھے والدین او ر چھوٹے بہن بھائیوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔
س: ایک طلاق یافتہ خاتون جس کے 2بچے ہیں  اور یہ واقعہ ہوگیا ہو اور آپ  نوجوان اوراسمارٹ بھی ہیں  اس کے باوجود آپ نے یہ کام کیا۔ سوال تو ہونگے مگر آپ پیچھے نہیں ہٹے ؟
حماد :  دیکھیں میری رائے تھی کہ یہ ایک حادثہ تھا  جو کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے بلکہ میرے ساتھ بھی ہوسکتاتھاکیونکہ دھمکیاںمجھے بھی تھیں۔یہ سوچنا کہ یہ واقعہ ہوگیا ہے اب شادی نہیں ہوسکتی یہ غلط ہے۔کچھ لوگ تعریف بھی کرتے مگر اکثرکہتے کہ اتنا بڑا کام کسی لالچ میں کیا ہوگا۔کسی نے دھمکی دی ہوگی یا کوئی  دبائوہوگا ۔لوگوں  نے یہاں تک بھی کہا کہ یہ کام اسی نے کروایا ہوگا۔جتنے لوگ اتنی باتیں ۔ بہرحال میں ان باتوں پر کان نہیں دھرتا تھااور کنول کو بھی سمجھاتا تھا ان باتوں کواس کان سے سنو دوسرے کان سے نکال  دو کیونکہ لوگوں  نے صرف باتیں ہی کرنی  ہے جو کچھ کرنا ہے ہم نے ہی کرناہے۔
س:کنول آپ کے شوہر حماد نے آپ کا بہت ساتھ دیا ،کیا تاثرات  ہیں اپنے ’’ہیرو‘‘ کیلئے ؟
کنول حماد:(ہنستے ہوئے )لوگ کہتے تھے  چنددنوں کا جذبہ ہے جوجھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔وقت کے ساتھ ساتھ جذبات ختم ہوجائیں گے لیکن حماد ثابت قدم رہے ہرحال میں میرا ساتھ دیا ۔مجھے  انتہائی پریشانی اور اذیت  میں بھی تنہانہیں چھوڑا۔کبھی کسی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا ۔گھر سے باہر نہیں جاتی تھی انہوں نے گھر سے باہر جانے کا حوصلہ دیا۔جب  میں گھر سے باہر نکلتی تھی تومیرا چہرہ پوراڈھکا ہوا ہوتا تھا۔حماد نے کہا چہر ہ مت چھپاؤ ۔ معاشرے کا ہمت کیساتھ سامناکرو۔اب میں ان کے ساتھ تقریبات سمیت ہرجگہ جاتی ہوں  ۔واقعہ کے بعد خود اعتمادی ختم ہوگئی تھی ۔انہوں نے مجھے دوبارہ  جینے کا اعتماد دیا۔ اب مجھے نہیں لگتا کہ مجھ  میں کوئی کمی ہے یا میں تیزاب سے متاثر ہوئی تھی۔اب بھی بہت خیال کرتے   اوربہت ساتھ دینے والے  ہیں۔بس اتنا ہی کہوں گی کہ اللہ نے مجھے  ان ہی کے توسط سے زندہ رکھا ہواہے۔ سچی بات ہے اگر یہ نہیں ہوتے  تو میں مرگئی ہوتی ۔بھائی نے جب مجھے پہلی بار دیکھا تو کہا کنول تم زندہ کیسے ہو؟ اسکے 2دن بعد میں  نے دوائیاں کھائیں اور خون کی رگیں کاٹ لیں تاکہ خون زیادہ بہہ  جائے اور میں مرجاؤں ۔لیکن اللہ  نے مجھے زندہ رکھنا تھا ۔ میری  زندگی  حماد ہی کی وجہ سے قائم ہے۔
س: گھر سے باہر لوگوں کا رویہ کیساہوتا ہے؟
کنول : لوگوں کا رویہ اچھا نہیں ہوتا۔بچے دیکھ کر کہتے ہیں دیکھو یہ عورت کیسی ہے اپنے والدین کو بھی بتاتے ہیں ۔والدین بھی بچوں کو      سمجھانے کے بجائے افسوس کرتے ہیں ۔کچھ خواتین دیکھ کر لمبا سانس  لیتے ہوئے کہتی ہیں توبہ توبہ کیسی عورت ہے اس کے قریب مت جاؤ۔پتہ نہیں کیا کیا بولتے  ہیں جس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔لوگوں کواچھی سوچ او ر اللہ سے ڈرنا چاہیے  ۔حادثہ تو کسی کیساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔کم از کم متاثرہ شخص کے سامنے افسوس کا اظہار نہ کیاجائے ۔ہمارے نظا م تعلیم میں معذروں کے حوالے سے تعلیم ہونی چاہیے۔اس میں میڈیا بھی اہم کردار اداکرسکتاہے۔
حماد: ان لوگوں پر غصہ آتا ہے او ر افسوس بھی  ہوتاہے ۔غصہ اس لیے آتا ہے کہ کیوں  دیکھ رہے ہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے  ۔لوگوں میں  آگہی   ہونی چاہیے کہ کسی کی بھی معذوری کامذاق نہیں اڑایاجائے۔
 س: تیزاب کے واقعہ میں فوری طورپر کیاکرنا چاہیے؟
حماد: جس جگہ تیزا ب پھینکا گیا ہو وہ جگہ فوری طور پر پانی کا زور دار پریشر ڈال کر دھودی جائے تاکہ تیزاب  پانی میں تبدیل ہوجائے او ر اس کا اثر ختم ہوجائے ۔اس کے بعد کوئی مرہم استعمال کریں تاکہ جلد نرم  ہوکر اترجائے  جیسے اسپتال میں پولی فیکس ٹیوب استعمال کی گئی تھی۔اگر سرجری  ہوتو ا س کے بعد فزیوتھراپی کی جائے۔
کنول : جلے ہوئے مریض جتنی حرکت کریں گے یا فزیوتھراپی کریں اتنا صحیح ہوتا ہے ورنہ جسم یا متاثرہ حصہ جڑ جاتاہے جس سے بعد میں حرکت کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔
س : کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس واقعے کے پیچھے کون لوگ تھے؟
کنول: سابقہ شوہر ریحان پر ہی شک  تھا ۔ میںنے پولیس کو نام بتایا  ریحان نے  انکارکیا یہ کام ہم نے نہیں کیا اور قرآن اٹھالیا۔
حماد:  اللہ کے فضل سے  اب ہمار ے خاندان  اوررشتے دار سب خوش ہیں  ، آتے جاتے بھی ہیںسب محبت  دیتے ہیں ۔
کنول: ڈپلیکس اور اسمائل اگین کی مسرت مصباح نے میری بہت مددکی ۔انہوں نے کئی کلاسز میںبہت اچھی طرح سے سمجھانے کی کوشش کی جس سے مجھ میں بہت زیادہ خود اعتمادی پیداہوئی  ۔میں آپ کے توسط سے ان کا بہت شکریہ اداکروںگی۔ انہوں نے بہت سی ایسی لڑکیوںکو بہت حوصلہ دیاہے ۔میری خواہش  ہے میں اس این جی او کیلئے کچھ کروں۔
س: آپ دونوں  معاشرے کوکیاپیغام دیںگے ؟
حماد:ہم اچھے کے چکر میں اتنا غافل ہوجاتے ہیں کہ   زندگی کی حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔خاص طورپر آج کل  کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں خوبصورتی دیکھ کر  زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔صر ف انہیں چیزوں کی اہمیت نہیں ہوتی ۔دل بھی صاف ہونا چاہیے ۔صورت کے بجائے سیرت پر زیادہ نظر رکھنی چاہیے۔ دل صاف ہوگا تو مشکلیں بھی آسان ہوجاتی ہیں۔جن لوگوں  پر ہمیں شک و شبہات  تھے انہیں معاف کردیا ہے  لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے آج وہ خوش نہیں ہیں۔اس واقعے  سے کم از کم میری زندگی تو سنبھل گئی ۔
کنول:ان خواتین سے کہوںگی جو شوہر کے مظالم کو چھپاتی ہیں وہ ایسا نہ کریں  ۔ اپنے والدین یا گھروالوں سے سسرال والوںکے تشدد ضرور  شیئر کریں کچھ پتہ نہیں آگے چل کر کیاہو او ر آپ کی زند گی  کے اہم سال برباد ہوجائیں۔میری  غلطی تھی میں ہمیشہ  اپنے سابق شوہر کے مظالم پر پردہ ڈالتی تھی ۔والدین بھی اس بات کاخیال رکھیں کہ شادی کرکے بیٹی کو چھوڑ نہ دیں  بلکہ سسرال آتے جاتے ر ہیںاور معلومات رکھیں۔لوگوں کی باتوں کا اثر نہ لیں۔ دنیا میں اگر برے لوگ ہیں تو اچھے لوگ بھی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: