Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندو ہونے پر شرمندگی

***معصوم مرادآبادی***
ہندوستان کی سرزمین پر فرقہ پرستی کے سائے مہیب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیموں کی طرف سے ملک میں اتنی منافرت پھیلادی گئی ہے کہ کمزور اور لاچار لوگوں کو قدم قدم پر اجنبیت کا احساس ہونے لگا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ فرقہ واریت کا عفریت پورے ملک کو نگل لے گا اور یہاں کچھ باقی نہیں بچے گا لیکن مایوسی اور ناامیدی کے انہی اندھیروں میں کبھی کبھی امید کی ایسی کرنیں بھی ابھرتی ہیں جو زندہ رہنے اور انسانیت پر اپنے یقین کو دہرانے کا سبب بنتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کرن پچھلے دنوں خبروں کے ہجوم میں ڈوب ضرور گئی لیکن اس چھوٹی سی خبر نے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔ ظاہر ہے جب ملک میں ہر روز نئے سیاسی سرکس ہوتے ہوں اور نت نئے اسکینڈل اور گھوٹالے جنم لے رہے ہوں تو ایسے میں اچھی اور حوصلہ مند خبروں کو نمایاں کرنے کی جگہ ہی کہاں ملتی ہے۔ 
یہ خبر دراصل ایک ملیالم ادیب سے متعلق تھی جس نے فرقہ وارانہ منافرت کے اس تاریک دور میں ایسی مثال پیش کی جس کی حالیہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ اس ملیالم ہندو ادیب نے ساہتیہ اکیڈمی کی طرف سے خود کو ملنے والی ایک لاکھ روپے کے انعام کی رقم اُس بدقسمت مسلم نوجوان کی ماں کے حوالے کردی جسے گزشتہ سال عید سے چند روز قبل محض اس کی مسلم شناخت کی بنا پر انتہائی بے دردی کے ساتھ پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیاگیا تھا۔ 16 سالہ جنید کی دردناک موت اتنی وحشیانہ اور ہولناک تھی کہ کئی اہم ادیبوں نے جنید کو اپنا بیٹا قرار دے کر اس پر مضامین قلم بند کئے تھے لیکن اس معاملے میں ملیالم زبان کے اہم ادیب رمن انّی نے جو مثال قائم کی ہے وہ سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
ساہتیہ اکادمی کی نصف صدی سے زیادہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ادیب نے اپنے علمی اور ادبی کارناموں کے عوض حاصل ہونے والی رقم فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے نام وقف کی ہو۔وہ گزشتہ دنوں جب اپنا ایک لاکھ روپے کا انعام لینے دہلی آئے تو ان کے ساتھ جنید کی ماں اور اس کا بھائی جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ رمن انّی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ایک لاکھ روپے کا چیک جنید کی ماں سائرہ بیگم کے نام لکھ کر لائے تھے۔ انہوں نے یہ چیک سائرہ بیگم کے حوالے کرتے ہوئے کہاکہ میں جلدازجلد یہ رقم جنید کی ماں کے اکاؤنٹ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ’’ یہ میرے اوپر ایک بوجھ ہے کہ میں ایک ہندوستانی شہری کے طورپر جنید کو انصاف دلانے کیلئے ابھی تک کچھ نہیں کرپایا ہوں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ایک ہندو ہوں۔ ایک سچا ہندو اور ایک سچا ہندو غلطی پر پچھتاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میرے مذہب کے نام پر جو بھی تشدد ہورہا ہے میں اس سے متفق نہیں ہوں اور ہمیں یہ باور کرانا ہوگا کہ یہ سب کچھ غلط ہورہا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم سب قصور وار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ایک ہندو ادیب ہونے کے ناطے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جو فسطائی طاقتیں ملک میں ہنگامہ آرائی کررہی ہیں، بے گناہوں کو ماررہی ہیں ان کے خلاف میں اپنے قلم کے ساتھ کھڑا ہوا ہوں۔ ‘‘
یوں تو ستمبر 2015میں جب اترپردیش کے دادری ٹاؤن میں عین بقرعید کے موقع پر گئو کشی کا جھوٹا الزام عائد کرکے محمد اخلاق کو انتہائی سفاکی اور بربریت کے ساتھ ایک وحشی ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا تھا تو پورے ملک میں انسانیت نواز لوگ بے چین ہواٹھے تھے۔ اس وحشت وبربریت کیخلاف ان تمام لوگوں نے شدید احتجاج درج کرایا تھا جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اور کسی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے کے سخت مخالف ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس موقع پر کئی سرکردہ ادیبوں اور فنکاروں نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ حکومت کو واپس کردیئے تھے اور اپنے ہندوستانی ہونے پر شرمندگی محسوس کی تھی لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ہندو ادیب نے خود کو حاصل ہونے والی انعام کی اتنی بڑی رقم مذہبی جنون کا شکار ہونے والے ایک مسلم نوجوان کے اہل خانہ کے سپرد کردی ہے اور اپنے ہندو ہونے پر شرمندگی کا احساس کیا ہے۔ 
ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ کے پی رام انّی نے اس موقع پر یہ بھی کہا ہے کہ بی جے پی حکومت ہندو فرقہ پرست انتہا پسندوں کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کررہی ہے اور اس سے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ رام انّی نے کہاکہ مرکزی حکومت ہندو فرقہ پرست انتہا پسندوں کیخلاف کارروائی نہیں کررہی ۔ وہ پس وپیش کررہی ہے، یہ ایک طرح کی بالواسطہ حوصلہ افزائی ہے۔ اقلیتوں پر مظالم کے معاملہ میں ازروئے قانون کارروائی نہیں ہورہی ۔ انہوں نے کہاکہ اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ ملیالم قلم کار نے کہاکہ فرقہ پرستی کینسر کی طرح ہے، ایک بار ہوجائے تو اس کا علاج انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ آیا ان کے خیال میں فرقہ وارانہ واقعات ، موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بڑھے ہیں؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا اور کہاکہ موجودہ حکومت میں کئی فرقہ وارانہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جب میں فرقہ پرست کہتا ہوں تو میرے کہنے کا مطلب 2فرقوں کی فرقہ پرست نہیں ہوتا بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہندواکثریتی فرقہ، مسلمانوں سے رواداری نہیں برت رہا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت فرقہ وارانہ جھڑپوں کے خاتمہ کی کوشش نہیں کررہی ، وہ تماشائی بنی ہوئی ہے۔ موجودہ صورتحال ملک کی بھلائی کیلئے ٹھیک نہیں۔ جنید کی ماں کو رقم دینے کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے کہاکہ یہ خیرات نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو میں جنید کی ماں کو اسکے مکان میں یہ رقم دیتا۔
ساہتیہ اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے رقم دینے کے بڑے معنی ہوتے ہیں۔ اس سے دوسرے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ ظلم وزیادتی کے تعلق سے لکھیں اور دیگر ہندوؤں کو بتائیں کہ حقیقی ہندو اصولوں کے مطابق آپ فرقہ پرست نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہاکہ جنید کو صرف مسلمان ہونے کے باعث ہلاک کیاگیا، یہ سچے ہندو کلچر کیلئے باعث شرم ہے۔ انہوں نے کہاکہ کئی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر لکھنا بند کردوں گا؟میرا جواب ہے ’’نا‘‘۔ یہ خود کشی کے مترادف ہوگا کیونکہ آپ کو موت کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ایک قلم کار کیلئے اپنا موقف ظاہر نہ کرنا، یا اسے بدل دینا، خودکشی کے برابر ہے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں