Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میری سادگی دیکھ تجھے نہ سمجھ سکی....

وہ اپنے گھر سے نکلی ،شوہر اور بچہ سب چھوڑ گئی،انکل 3سال بعد اچانک آئے ،دروازہ کھولتے ہی نجمہ آنٹی تو جیسے ساکت ہی رہ گئیں
زاہدہ قمر۔ جدہ
یہ کہانی در حقیقت زندگی کی وہ تلخ تصویر ہے جسے دیکھ کر دوبارہ دیکھنے کو دل نہ چاہے اور نہ ہی کوئی بھی فرد اپنی زندگی کو اس تصویر کے قالب میں  ڈھالنا پسند کرے گا۔ میری دوست شمائلہ کے والد دبئی میں مقیم تھے۔انہیں وہاں ملازمت کرتے ہوئے دس بارہ سال ہو گئے تھے ، اگرچہ ملازمت بہت اچھی تھی مگر شمائلہ کی والدہ نے ان کے ساتھ جانے کے لئے کبھی نہیں سوچا۔ وہ اپنی 3 بیٹیوں کی پڑھائی اور پھر شادی تک کا سوچے بیٹھی تھیں۔ ان کا ارادہ تھا کہ 2 بڑی بیٹیوں کی تعلیم مکمل ہوتے ہی ان کی شادی کر دیں گی کیونکہ ان کی دونوں بڑی بیٹیاں یعنی راحیلہ اور نائلہ انٹر کر رہی تھیں۔ شمائلہ ہمارے ساتھ میٹرک میں تھی۔ ان کے والد جب بھی پاکستان آتے تحائف سے لدے پھندے ہوتے ۔گھر میں گویا عید کا سماں ہو جاتا۔ ان کی امی ہمارے گھر بھی دبئی کی سوغات ضرور بھجواتی تھیں۔اماں سے انکی بڑی دوستی تھی۔  وہ بے حد مخلص اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ بیٹا کوئی نہیں تھا مگر بیٹیوں کو اس کمی کا ا حساس نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں کہ ان کا کوئی بھائی نہیں۔ انہیں پُر اعتماد اور تعلیم یافتہ بنا کر زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کی تربیت دے رہی تھیں۔ اماں بھی ہر قدم پر ان کا حوصلہ بڑھاتیں ’’ارے! بیٹیاں کسی طرح بھی بیٹوں سے کم نہیں بلکہ وفا اور خدمت گُزار ی میں تو بیٹوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ دیکھنا تم راج کرو گی راج‘‘ اماں کے الفاظ سن کر وہ خوش ہو جاتیں۔
نجمہ آنٹی نے اپنے شوہر کے پیسوں کو بڑی خوبی اور سلیقے سے استعمال کیا اور بچت کر کے اپنے گھر کی توسیع کروائی۔انکل جب سال بعد پاکستان آئے تو خوشگوار حیرت ان کی منتظر تھی۔ ’’واہ بھئی واہ!! تم نے تو کمال کر دیا نجمہ ( آنٹی کا نام) اکیلے سارا کام کر ڈالا۔ اوپر کی منزل اتنی جلداور ایسی خوبصورت بنوائی ہے کہ اب میرا تو یہاں سے جانے کا دل نہیں چاہ رہا‘‘ ۔وہ بار بار خوش ہو کر آنٹی کی تعریف کرتے اور آنٹی کا چہرہ شدت جوش سے دیدنی ہوتا ، وہ اس بچے کی طرح خوش تھیں جو اپنا شاندار رزلٹ دیکھ کر شاداں و فرحاں ہو تا ہے ۔ شاید رزلٹ کا لفظ میں نے صحیح نہیں لکھا۔ آخر ٹیچر ہوں نا !!! تو امتحان اور رزلٹ کی مثال ہی دے سکتی ہوں ۔ گھر بن گیا اور مرمت بھی ہوئی مگر اس کام میں کافی پیسہ لگ گیا۔ انکل نے تشویش کا اظہار کیا تو آنٹی نے کرائے پر مکان کی اوپری منزل دینے کی تجویز پیش کی ۔انکل متامل تھے مگر آنٹی نے یہ کہہ کر منا لیا کہ ’’میں کوئی دیکھی بھالی شریف فیملی کو گھر دونگی۔  زیادہ افراد نہیں ہونگے اچھی طرح سوچ سمجھ کر ہی لوگوں کا انتخاب کرونگی اور پھر یہ بھی ہے کہ ہم تینوں ماں بیٹیوں کو دوسراہٹ بھی ہو جائیگی‘‘۔ انکل تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد مان گئے ۔یوں گھر کرائے پر دینے کیلئے لوگوں کو بتانے اور فیملیز سے ملنے ملانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔انکل نے بھی اپنی موجودگی میں بڑی کوشش کی مگر بات نہ بن سکی ۔آخر ان کی رُخصت ختم ہوئی اور وہ عازمِِ سفر ہوئے۔بیوی کو ڈھیر ساری ہدایات دیکر ’’دیکھواچھے لوگوں کا انتخاب کرنا، چھان بین کروالینا میرے اور اپنے گھر والوں سے ضرو ر مشورہ کرنا، چھوٹی فیملی ہو تو زیادہ اچھا ہے ، جوان لڑکوں والی فیملی کا مت سوچنا، اکیلے مرد کو بھی کرائے پر مت دینا، پیسے سے زیادہ شرافت کا خیال رکھنا، وغیرہ وغیرہ‘‘۔
انکل کے جانے کے تقریباً چار پانچ ماہ بعد آخر آنٹی کو حسبِ خواہش کرائے دار مل گئے۔ یہ ایک چھوٹی فیملی کے پانچ افراد تھے یعنی نو جوان میاں بیوی ان کا ایک چھوٹا سا ڈیڑھ سال کا بیٹا  اور 2 بوڑھے سمجھدار ساس سُسر۔میں نے پہلی بار شما ئلہ کی سالگرہ پر ان کے کرائے داروں کو دیکھا۔ ساس سُسر تو مدبر اور نیک و شریف النفس تھے ہی۔ ان کی بہو کو دیکھ کر میں دنگ رہ گئی ، میں نے شاید ہی اپنی پوری ذندگی میں اتنا حُسن دیکھا ہو۔۔۔۔۔ وہ اس قابل تھی کہ اسے پریوں سے تشبیہ دی جائے۔ اسے دیکھ کر اگر مڑ کر نہ دیکھیں تو حیرت کی بات تھی۔ میں نے محفل میں جان پڑنے کا محاورہ وہاں سچ ہوتے دیکھا۔ ہر نگاہ اس کی جنبش کے ساتھ ذاویہ بدل رہی تھی۔ اور قارئین!! یہ مبالغہ نہیں ہے میں اس کی تعریف میں کمی تو کر سکتی ہوں مگر بیشی نہیں کیونکہ نہیں محتاج لفظوں کا جسے خوبی خدا نے دی‘‘اسے بھی اپنی خوبصورتی کا احساس تھا اسی لئے احساسِ تفاخر اس کی ایک ایک ادا سے ظاہر تھا۔ وہ کسی ریاست کی مہارانی کی طرح تمکنت سے سر اُٹھائے بیٹھی تھی اور مہمان خصوصی کا پروٹو کول اس کا نصیب تھا۔ میں جب تک تقریب میں رہی میں نے لوگوں کو اس پر رشک اور خواتین کو حسد کر تے دیکھا۔ دل میں ایک تجسس تھا کہ اس کا شوہر دیکھا جائے جب شوہر کو دیکھا تو مایوسی سی ہوئی۔ وہ ایک عام سا سادہ مزاج آدمی تھا اور اپنی بیوی کی عزت افزائی پر بہت خوش دکھائی دیتا تھا۔ تقریب سے واپسی پر بھی ہمارا موضوع سُخن نئے کرایہ دار تھے۔ انسان کی فطرت ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی حیران کُن اور خلافِ عقل کام بھی روز ہونے لگے تو اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے ۔ یہی حال نئی کرایہ دار نی کے حُسن جہاں سوز کا ہوا۔شروع میں ہر وقت تذکرہ پھر وقفہ ، پھر زرا اور طویل وقفہ اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس و قفے کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہو گیا۔ ہماری ڈیٹ شیٹ اور رول نمبر سلپ آگئی ہم امتحانات میں مگن و مصروف ہو گئے۔ شمائلہ کے گھر جانا تو درکنار اس سے ملاقات بھی ہونا بند ہو گئی ۔ امتحانات کے بعد دوستوں کی یاد آئی تو شمائلہ کو بھی فون کر ڈالا وہ بڑی خوش ہوئی ، بتایا کہ ’’پاپا وزٹ پر آئے ہیں۔ میں تمھارے گھر آنے ہی والی تھی۔ باجی کی منگنی ہو رہی ہے تم کو انوائیٹ کرنا تھا‘‘ ہم نے اسے مبارکباد دینے کے لئے اس کے گھر جانا مناسب خیال کیا اور شام کو ہم دونوں بہنیں اماں کے ساتھ کیک لے کر اس کے گھر پُہنچ گئے ۔ سارے گھر میں خوشیوں کے چراغ سے جل اُٹھے تھے۔ پتہ چلا کہ بہت جلد شادی متوقع ہے۔  شمائلہ نے بتایا ’’پاپا کل ہی پہنچے ہیں، وہ نئے کرائے داروں سے بھی مِل کر خوش اور مطمئن ہوئے اتنے میں اس کی کرائے دار حسینہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ تشریف لے آئیں۔ وہ بھی غالباً مبارکباد دینے آئے تھے ۔شمائلہ کے پاپا نے بڑی ملنساری کا مظاہرہ کیا اور پُروقار طریقے سے انہیں خوش آمدید کہا۔ تھوڑی دیر مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ اپنے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے، ویسے بھی وہ ایک کم گو اور کسی حد تک تنہائی پسند آدمی تھے مگر بے حد خوش اخلاق اور باتمیز و مہذب۔
ہم سب خوش تھے ، منگنی ہوئی اور تاریخ طے کر دی گئی۔ انکل اس تقریب کے بعد واپس چلے گئے ۔ گئے تو تھے کہ جلد آکر نائلہ کی شادی کر دیں گے مگر پھر ان کا قیام بڑھ گیا۔ وہ نائلہ کے سُسرال والوں کو شادی کے لئے ٹالنے لگے آنٹی اُنہیں واپس آنے کا کہتیں تو بھڑک اُٹھتے ’’ میں یہاں عیش و آرام سے نہیں ہوں، دن رات کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا ہوں تب کہیں جا کر تمھیں پیسے بھیجتا ہوں ، تم کیا سمجھتی ہو میرا آنا اتنا آسان ہے؟؟ بس نائلہ کی سُسرال کو ٹال دو۔ انہیں کس بات کی جلدی ہے ؟ جب ہم لڑکی والے ہو کرجلدی کی رٹ نہیں لگا رہے تو وہ لوگ کیوں اسقدر دیوانے ہو رہے ہیں ؟؟ بس تم انہیں ٹال دو ۔۔۔۔
اِدھر آنٹی انکل کی وجہ سے پریشان تھیں۔ اُدھر ان کے کرائے داروں کے گھر ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، ان کی کرایہ دار خاتون (آپ اس کا نام زویا سمجھ لیں) گھر  سے سودا لینے نکلی تو پھر واپس نہیں آئی۔ہر جگہ ڈھونڈ لیا مگر کوئی سُراغ نہ مِلا۔ بچے کی حالت ماں کے بغیر بہت خراب تھی۔بڑی مشکل سے دادی اسے سنبھالتیں ۔ سارے حربے آزمالئے مگر وہ خاتون نہ ملی، آخر سب تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ نہ جانے بے چاری کے ساتھ کیا ہوا ؟؟ اس کا شوہر اور ساس سُسر بڑے آزردہ اور دل گرفتہ تھے۔  ان کا غم دیکھا ٰ نہیں جاتا تھا۔ مگر کب تک؟؟وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ آخر صبر آہی گیا ان لوگوں نے اپنا سامان سمیٹا اور دوسرے گھر شفٹ ہو گئے اور رفتہ رفتہ ان کا ذکر قصہ پارینہ بن گیا۔ سب کا خیال تھا کہ زویا کے ساتھ ضرور کوئی حادثہ پیش آگیا ہو گا۔
نائلہ باجی کے سُسرال والوں نے مسلسل ٹالے جانے کے باعث منگنی توڑ دی۔ انکل کی ملازمت ختم ہو گئی تھی اور وہ دوسری ملازمت ڈھونڈ رہے تھے اس لئے انہوں نے پیسے بھیجنا تقریباً بند کر دیا تھا ۔ آنٹی اپنی بچت سے جیسے تیسے کر کے گھر چلا رہی تھیں۔ یہ تیسرا سال تھا کہ انکل گھر نہیں آئے اور نہ ہی کوئی پیسہ بھیجا۔ آنٹی کے گھر میں نئے کرائے دار آگئے تو زندگی کا کچھ آسرا ہو گیا۔  انکل نے نہ تو زویا کے غائب ہونے پر اور نہ ہی نئے کرائے داروں کے آنے پر کسی بھی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر کیا تھا۔ آنٹی اپنے شوہر کی تکلیف پر اور گھر والو ں کی خاطر ان کے ملازمت کی تلاش میں مسلسل سر گرداں رہنے پر بے حد پریشان تھیں۔ ان کے دل میں اپنے شوہر کی عزت اور بڑھ گئی تھی کہ اچانک ان کے چھوٹے دیور کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اس کی حالت بے حد تشویشناک تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا ۔ سب پریشان تھے انکل کے والد کو اس صورتحال میں دل کا دورہ پڑ گیا۔ انکل کو بھی خبر دے دی گئی ۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی سے بے حد پیار کرتے تھے ، ایکسیڈنٹ کا سُن کر تڑپ اُٹھے اور جب ان کو یہ خبر ملی کہ والد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے تو بُری طرح بدحواس ہو گئے اور آخر کار اپنے آنے کی خبر سُنا دی ۔ وہ پورے 3 سال اور 4 مہینے بعد واپس آرہے تھے ۔ گھر کے حالات کے پیش ِ نظر کوئی انہیں لینے ائیرپورٹ نہیںگیا۔ مگر سب بے قراری سے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ ٹیکسی دروازے پر آکر رُکی تو آنٹی نجمہ دوڑ کر پُہنچیں ، انہوں نے دروازہ کھولا اور ساکت کھڑی رہ گئیں انکل بہت اطمینان بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ زویا کو لے کر اندر آگئے۔ انہوں نے آنٹی اور اپنے گھر والوں کو زویا کا تعارف اپنی بیوی کی حیثیت سے کر وایا۔ وہ زویا کے ساتھ بے حد خوش و خرم اور مطمئن نظر آرہے تھے۔ سب حیران تھے کہ ان کا زویا سے کب ملنا جلنا ہوا؟ کب شادی کا پروگرام طے پایا؟ زویا نے گھر کس طرح چھوڑا ؟  انکل کے پاس کس طرح پُہنچیَ؟؟ بظاہر تو دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی سروکار نہ تھا اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے زیادہ ملے ان کی کس طرح کی دوستی تھی کہ شک کیا جا سکتا۔ انکل اور زویا نے کتنی بے شرمی اور خود غرضی سے اپنے اپنے گھر والوں کے اعتماد اور سادگی کا مذاق اُڑایا تھا اور اب بھی وہ بہت ڈھٹائی اور بے غیرتی سے کہہ رہے تھے کہ ’’ہم نے شادی کی ہے، کوئی گناہ تھوڑی کیا ہے ؟ آخر کب تک چُھپتے ؟ کسی کو پسند کرنا غلط بات تو نہیں ؟ اور نہ ہی شادی کرنا کوئی بُری بات ہے ‘‘۔ زویا نے اپنے شوہر سے کب علیحدگی لی اور اس کے شوہر کا کیا ردِ عمل  تھا۔ یہ سب بالکل معلوم نہیں ہو سکا ۔میں اب بھی صرف ایک بات سوچ رہی ہوں لوگ اپنوں کو اتنی سفاکی سے دھوکا دے کر کس طرح خوش رہ سکتے ہیں؟؟
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: