Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا میں 80فیصد مہاجرین غریب ملکوں میں مقیم

65.6 ملین لوگ سیاسی، معاشی یا بدامنی جیسے مسائل کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اب کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں
عائشہ عباسی حیات۔ اسلام آباد
دنیا کی کل آ بادی کا بڑا حصہ سیاسی ،معاشی یا بدامنی جیسے مسائل کی وجہ سے ملک چھو ڑنے پر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ کی  ذیلی تنظیم  یو این ایچ سی آر کے مطا بق  دنیا میں  65.6ملین لوگو ں کو کئی و جو ہ کی بنا پر ملک چھو ڑنا پڑا   جس میں سے 22.5 ملین لو گ مہا جر ہیں  جنہوں نے ایک ملک سے دوسرے میں ہجرت کی۔ہر13  لو گو ں میں سے ایک شخص مہا جر ہے۔ دنیا میں ہر  منٹ تقر یباً  20  لو گوں کو  ظلم زیا دتی  یا کسی تنا زعے کی وجہ سے  زبر دستی بے گھر کر دیا جاتا ہے ۔اس میں سب سے زیا دہ  سا ڑھے 5 ملین تعداد شام کے مہاجر ین  کی ہے جو کہ شام میں جا ری  7 سالہ   خا نہ جنگی کی وجہ سے ملک چھو ڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس میں سو ڈان بھی شا مل ہے جہاں سے اب تک 1.87 ملین لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔اور ان لو گو ں کی تعداد دن بدن  بڑھ رہی ہے مگر زیادہ مثبت پہلو یہ ہے کہ  وہ  6.5 ملین لو گ جو ملک کے اندر  بے گھر ہوئے دوبارہ اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔  55% مہا جر شام،افغانستان اور  جنوبی سو ڈان سے ہیں۔
دنیا میں تقر یباً 80فیصد مہاجرغر یب مما لک میں ہیں ۔  سب سے زیادہ  ایتھو پیا 791,600،یو گنڈا 940,800،ایران 979,400 ،لبنان 1.0 ملین ،پا کستان 1.4  جبکہ ترکی 2.9 ملین  مہا جرین کی میز با نی کرنے میں سر فہرست ہیں۔حا لیہ دنو ں میں میا نمار میں  پر تشدد ک وا قعات کے بعد  10لاکھ رو ہنگیا مسلما نوں نے بنگلہ دیش کی طر ف ہجر ت کی اور اب کیمپو ں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ہجرت کے اس عمل میں کئی لو گ اپنی زند گیو ں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ بحیرہ روم کے  راستے استعمال ہوتے ہیںاور سب سے زیادہ اموات بھی  بحیرہ روم میں ڈو بنے سے ہو ئیں۔صر ف 2017 میں 172,301 مہا جر ین نے سمندر کے ذریعے  یو رپ جانے کی کو شش کی جن میں  سے 3,139 یا تو سمندر میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو  بیٹھے یا لا پتہ ہو گئے۔ 2018ء  میں اب تک 12,428 سمندر کے رذریعے یو رپ گئے جن میں سے تقر یباً 446 اب تک لاپتہ ہو چکے ہیں۔  ان میں سے بیشتر  غیر قا نو نی طور پر یو رپ جانے کی کو شش میں  یا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا انسانی اسمگلر وں کے ایک چنگل سے نکل کر دوسرے میں پھنس جاتے ہیں۔ اس میں لیبیا ، مصر  اور دوسرے افر یقی مما لک  سے  نو جوان  لڑ کے لڑ کیو ں کو انسانی اسمگلر  اچھی  زندگی کا جھانسا دیکر  اس جہنم میں دھکیل دیتے ہیں  ۔اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم آئی او ایم کے مطا بق  80 فیصد  نا ئیجیر ین لڑ کیاں  جو سمندر کے ذریعے اٹلی پہنچیں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئیں جس میں انہیں  استحصال کا نشا نہ بنا یا جا تا ہے۔
  اس کا شکار پا کستانی نو جوان بھی ہوتے ہیں پچھلے کچھ دنو ں میں کئی پا کستانی  لیبیا میں کشتی ڈوبنے کی وجہ سے  زندگی سے  ہاتھ دھو بیٹھے۔تر بت میں کئی نو جوان  انسا نی اسمگلروں کا شکار ہوئے اور  بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ اس طر ح کے نا جانے کتنے واقعات ہوتے جو کسی کی آنکھ سے نہیں گزرتے  اور انسانوں کی بے حر متی بے دردی سے جاری رہتی ہے۔  مہا جرین  یا تو کسی جنگ کے نتیجے میں  ملک چھوڑتے ہیں  یا معا شی مسائل سے تنگ آ کر  اچھی زندگی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور پھر ان گھنا  ئو نے انسانی درندوں کا  نشانہ بن جاتے ہیں ان مسا ئل کی ذمہ دار بھی حکومتیں ہوتی ہیں اور ان کو حل کرنا بھی حکو متوں کی ذمہ داری ہے صرف انسانی حقوق کی تنظیموں  پر انحصار نہیں کیا جا سکتا  وہ کچھ حد تک تو ان مسا ئل کا حل نکا ل سکتے  ہیں  انسانی اسمگلر ہر جگہ کسی بھی صو رت میں مو جود ہوتے ہیں اور انہیں بعض اوقات طا قتور لو گوں کی پشت پنا ہی حا صل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کا شکار لوگ اپنی آ واز حکام تک نہیں پہنچا سکتے۔  دوررس اور سنجیدہ اقدامات حکو متوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اگر حکمران سیاست کو اپنے مفا دات کے بجائے لو گو ں کی فلا ح کے لئے استعما ل کریں  تو کو ئی بھی اپنا ملک چھو ڑنے پر مجبور نہ ہو ۔کاش کے حکمران اپنے سیاسی مفا دات کو با لا ئے تاک رکھ کر انسا نیت کے لئے بھی کچھ کریں ۔روزانہ کی بنیا د پر اس طر ح کے وا قعات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ان کا حل کو ئی نہیں۔ حکو متوں کو ان مسا ئل سے نمٹنے کے لئے   ٹھو س لا ئحہ عمل ترتیب دینا چا ہیے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: