Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی

جمیل الذیابی۔ عکاظ
بونا جب اس خوش فہمی میںمبتلا ہوجائے کہ وہ دیوہیکل کو پچھاڑ سکتا ہے تو یہی اسکے انجام کا وقت ہوتا ہے۔ حوثی ملیشیا کو بہت زیادہ پچھتانا پڑے گا کہ اس نے سعودی عرب سے دشمنی مول لی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ چند میزائل داغ کر وہ سعودی عرب کو شکست دے سکتے ہیں۔ اسے اندازہ نہیں کہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج کی بمباری سے اس کی موت جلد لکھی ہے۔ سعودی عرب اور اس کے حلیفوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ خطے میں ایران کی اچھل کود اب مزید برداشت نہیں کی جائےگی۔ یمن کو مسلح ملیشیا سے پاک کرکے جلد یمنی شہریوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ 
یہ بات باعث تعجب نہیں رہی کہ دوحہ نے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے۔ وہ بھی ایران کی دھن پر ناچ رہا ہے ۔ اسکے رویہ سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اُس طرف سے بھی کسی وقت حملہ ہوسکتا ہے۔ ایران سے یہ بعید نہیں رہا کیونکہ وہ نہ صرف حوثی باغیوں کو اسلحہ اور میزائل فراہم کررہا ہے بلکہ صعدہ میں میزائلوں کے پرزے لے جاکر انہیں یکجا کرکے سعودی عرب پر داغنے کی بھی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ اس پوری کارروائی میں قطر مالی امداد کررہا ہے۔ وہ الجزیرہ چینل کے ذریعے اپنے چیلوں کو خفیہ پیغامات بھیج رہا ہے۔ ان خفیہ پیغامات کو حوثی ملیشیا اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں اور پھر ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ 
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب پر بیک وقت 7 میزائل داغنے کی خوشی میں حوثی ملیشیا اور اسکے پشت پناہ جشن منا رہے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہ ان کا آخری جشن ہوگا۔ ایران کی توسیع پسند پالیسی آخری دم پر ہے۔ اب دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ ایران خطے میں کیا کردار ادا کررہا ہے۔ سعودی عرب اور اسکے حلیفوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حوثی باغیوں کی ایران کی طرف سے جتنی بھی مدد کی جائے اور انہیں کتنے ہی میزائل فراہم کردیئے جائیں وہ یمن پر حکمرانی نہیں کرسکتے۔ نہ ہی ان کے اندر سعودی عرب سے مقابلہ کرنے کی سکت ہے۔ 
ایران اور اسکے ہمنوا مخبوط الحواس ہو چکے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پہلے برطانیہ میں اور پھر امریکہ میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ سعودی عرب کی کامیاب سفارتکاری سے بڑے معاہدے ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب نہ صرف خطے میں بلکہ پورے اسلامی ممالک کی بڑی طاقت بن چکا ہے۔ ایران اور حوثی ملیشیا کو جمال عبدالناصر سے سبق سیکھنا چاہیئے جس نے سعودی عرب کیخلاف سازشوں کے تانے بانے بُنے اور اسے منہ کی کھانا پڑی۔ انہیں صدام حسین کا انجام دیکھنا چاہیئے جس نے سعودی عرب پر کئی میزائل داغے ۔ معمر قذافی نے بھی مملکت کیخلاف متعدد مرتبہ سازشیں کیں۔ قطر تو ایک عرصہ سے سازشوں میں مصرو ف ہے۔ یہ سب اب ماضی کا قصہ بن گئے اور تاریخ کے کوڑے دان میں ان کا انجام ہوا۔ سعودی عرب الحمدللہ آج بھی مستحکم ہے اور پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: