Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صاف پانی کی رسائی

پاکستان تحقیقاتی کونسل برائے آبی وسائل(پی سی آر ڈبلیو آر)نے کہا ہے کہ اگر پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت آبی وسائل کی بہتری کی یہی رفتار جاری رہی تو 2030تک صرف 53فیصد لوگوںکو پینے کے صاف پانی تک رسائی ممکن ہو جائے گی۔ پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق آبی وسائل کی بہتری کی موجودہ رفتار کو تین گنا بڑھانا چاہیئے ۔اس مقصد کیلئے انفراسٹرکچر اور انسانی وسائل میں پائیدار سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں 57فیصد پانی کے نمونوں کی جب جانچ پڑتال کی گئی تو وہ مضر صحت پائے گئے جبکہ6 فیصد میں آرسینک،8فیصد گدلا پن،15فیصد کلورائیڈ،6 فیصد نائٹریٹ،ٹی ڈی ایس 11 فیصد،ہارڈ نس6فیصد اور 10فیصد میں آئرن پایا گیا۔
سندھ اور بلوچستان میں پینے کے پانی کے معیار میں گزشتہ جائزوں کی نسبت کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعض شہروں میں پینے کے پانی کا معیار بہتر ہوا ہے۔
سندھ میں آلودہ پانی سے عوام پریشان ہیں۔ اندرون سندھ تو صورتحال بڑی خراب ہے لیکن کراچی میں بھی کوئی اچھی نہیں۔ پچھلے مہینے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کراچی میں پانی کے مسئلے پر مقدمے کی سماعت کی تھی۔ اس دوران بتایا گیا تھا کہ کراچی کے شہریوں کو گدلا پانی فراہم کیا جاتا ہے اور اب تک مسئلے کو حل کرنے کی طرف پیشرفت نہیںہوئی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے ملک کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے اوراس طرح عوام کی صحت سے نہ کھیلا جائے کیونکہ یہ گدلا اور نقصان دہ پانی ہر عمر کے افراد کےلئے ضرر رساں ہے خاص کر بچوں کیلئے جو ہمارا مستقبل ہیں۔ ابھی سے انہیں بیمار کردینے کا یہ طریقہ انتہائی غلط ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: