Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بدلتی آنکھیں، ہمارے لڑکے کی عمر چھوٹی ہے، سائرہ یہ الفاظ سننے کی عادی تھی

 خالہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے سائرہ کی آنکھیں کسی پراسرار طاقت کے زیر اثر تبدیل ہوتی جارہی ہیں، لال!بے حد لال بلکہ لہو رنگ
 زاہدہ قمر۔ جدہ
’’ کتنی خوفناک فلم تھی ناں؟ مجھے ابھی تک خوف آرہاہے‘‘۔ 15 سالہ اجو ہزار دفعہ یہ بات سائرہ سے کہہ چکا تھا اور سائرہ   اپنے خیالوں میں گم گھر کی صفائی ستھرائی اور آج شام کو آنے والے مہمانوں کے تصور میں کھوئی ہوئی تھی ۔ ہر بار ہوں ہاں میں جواب دیکر اسے ٹال چکی تھی مگر اس بار جب اجو نے اپنی بات دہرائی تو سائرہ ہوں ہوں ہاں بھی نہ کر سکی۔ اس کے خوش کُن تصورات نے اسے حقیقت کی دنیا میں آنے ہی نہیں دیا۔ اجو جھنجلا کر رہ گیا۔سائرہ نے ہمیشہ اس کی باتوں میں دلچسپی لی تھی اور کیوں نہ لیتی وہ ایک ہی تو بھائی تھا ان3 بہنوں کا۔ بہنیں اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ اس کی ہر بات پر اپنی دلچسپی کا اظہار کرتی تھیں  مگر آج سائرہ رات کی دیکھی ہوئی فلم پر تبصرہ کرنے سے اس لئے قاصر تھی کہ آج چند لوگ اس کے رشتے کی بات کرنے آرہے تھے۔ اس گھر کی خواتین نے اسے (سائرہ کو) خالہ کے گھر میلاد میں دیکھا تھا ۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ لڑکا انکم ٹیکس میں ملازم تھا اور اس کی ماں کو کسی شریف گھرانے کی سلیقہ مند لڑکی درکار تھی ۔سائرہ تو ان دونوں خوبیوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی۔ لہٰذا وہ خاتون اسے دیکھتے ہی لٹو ہو گئیں اور آج وہ اس کے گھر بات طے کرنے کے لئے آرہی تھیں ۔ خالہ سے انہو ں نے سائرہ کے متعلق تمام معلومات لے لی تھیں۔ خالہ سائرہ کی سگی خالہ نہیں تھیں۔ اولاد کوئی تھی نہیں جوانی میں بیوہ ہونے کے بعد انہوں نے شادی نہیں کی تھی ۔ محلے کے بچوں کو قرآن پڑھا کر گُزر اوقات کیا کرتی تھیں۔ بے حد سادہ اور قناعت پسند خاتون تھیں۔ گھر کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے ان لوگوں کے آنے سے پہلے ہی سائرہ کے گھر پُہنچ گئیں۔ ’’میں نے سوچا بچی اکیلی کیسے سب کچھ کریگی اس لئے ہاتھ بٹانے آگئی‘‘۔ وہ محبت سے بولیں۔ 
’’نہیں خالہ سب کام ہو چکا۔ طاہرہ اور مائرہ نے کافی ہاتھ بٹایا ہے میرا‘‘۔سائرہ نے ان کو منع کر دیا۔ خالہ  مطمئن ہو کر ان تینوں کو دعائیں دیتی ہوئی اماں کے پاس چلی گئیں۔’’خالہ آپ نے رات والی فلم دیکھی‘‘ اجو ان کو بھی اپنے خیالات میں شریک کرنے لگا۔ خالہ کے انکار پر طاہرہ نے انہیں مختصر اسٹوری سمجھائی ’’خالہ اس فلم میں دکھایا تھا کہ ایک قصبے کے سب لوگ کسی طاقت کے زیرِ اثر آجاتے ہیں اور ان کی  آنکھیںلال ہو جاتی ہیں۔  وہ ہیرو کو بھی اس پراسرار طاقت کا غلام بناناچاہتے ہیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد پورے کر سکیں۔ ہیروئن ہیرو کا ساتھ دیتی ہے مگر پھر اس کی آنکھیں بھی بدل کر لال ہو جاتی ہیں‘‘۔ ’’کیا واقعی؟‘‘ خالہ ڈر گئیں’’ ایسا ہو سکتا ہے؟؟‘‘سب ہنس پڑے خالہ جھینپ گئیں اسی وقت ان خواتین کے آنے کا غلغلہ اُٹھا اور یہ لوگ سب کچھ بھول بھال کر ان خواتین کا سواگت کرنے لگے۔ مگر یہ سب بے سود تھا خواتین تو ان کا معمولی گھر اور معمولی فرنیچر دیکھ کر ہی مایوس ہو گئی تھیں رہی سہی کسر انہوں نے سوالات کے ذریعے نکالی۔ والد معمولی کلرک ،3 بیٹیوں کا بوجھ اور ایک چھوٹا بھائی یہ تمام باتیں انہیں بددل کرنے کے لئے کافی تھیں۔ ان کا انکار تو چہرے سے عیاں تھا مگر خالہ نے ہمت نہیں ہاری جب ان کو دروازے تک رُخصت کرنے گئیں تو ان کی رائے پوچھ بیٹھیں۔ لڑکے کی ماں نے بڑی نخوت سے پیچھے کھڑی سائرہ کو نظر انداز کرکے کہا’’لوگ تو اچھے ہیں مگر بہن بُرا نہ منایئے گا لڑکی کی عمر تھوڑی زیادہ ہے۔ میرا بیٹا بہت چھوٹا ہے‘‘۔ اور سائرہ ان کے جاتے ہی ضبط کے تمام بندھنوں کو توڑ بیٹھی۔’’خالہ انہوں نے مجھے پسند کیا تھا جب ہی تو ہمارے گھر آئی تھیں۔ اب میں ان کو کیسے بڑی عمر کی لگی‘‘۔ وہ خالہ کی گود میں چہرہ چُھپائے سسک رہی تھی اور خالہ کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ پھر یکے بعد دیگر ے وہ تینوں ہر خاتون سے اس طر ح کا ہی جواب کم و بیش سننے لگیں جو ان کو تقریبات میں تو پسند کرتیںمگر بڑی عمر کا قرا دیکر انکار کر دیتیں۔ اماں نے مایوس ہو کر مائرہ اور طاہرہ کی شادیاں اسی محلے کے بے شمار مسائل کے شکار کم پڑھے لکھے عامر اور سہیل سے کر دیں۔ مگر سائرہ کے سہرے کے پھول نہ کھل سکے۔ وقت گُزرتا گیا ان گُزرتے ماہ و سال نے اس کی جوانی تو چھین لی تھی مگر زندگی میں تھوڑی سی آسائش اور آسانی در آئی تھی۔ اجو بینک میں ملازم ہو گیا انہوں نے نسبتاً صاف ستھرے علاقے میں رہائش اختیار کر لی۔ ایک چھوٹی سی گاڑی بھی خرید لی۔ اجو بے شک بڑا تو ہو گیا تھا مگر انداز ابتک بچوں والا ہی تھا۔ خالہ اب بھی جب کبھی آتیں وہ ان کو لال آنکھوں والی فلم کا حوالہ دیکر خوب تنگ کرتا اور خالہ مُسکرا دیتیں۔ آج کل تو یہ سب ملکر اجو کے لئے لڑکی ڈھونڈ رہی تھیں۔ آخر سائرہ کو نعیم(اجو کے دوست) کے گھر کی پارٹی میں انعم پسند آہی گئی ، نازک اور پیاری سی انعم ۔ اس نے نعیم کی والدہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور آج وہ امی اور خالہ کے ساتھ نعیم کی والدہ کے ہمراہ انعم کے گھر جا رہی تھی۔ گاڑی چھوٹی سی آبادی کے ایک عام سے گھر پر جا کے رُکی تو سائرہ نے بے اختیار ناک پر رومال رکھ لیا۔ اندر کا حال بھی باہر سے مختلف نہ تھا۔ سائرہ بے حد بد دلی سے اس بے حد معمولی مگر سلیقہ مندی سے سجے ہوئے مکان میں بیٹھی رہی۔ ’’ہمارا ایک ہی تو بھائی ہے اور یہ لوگ؟؟‘‘ اس نے دل میں سوچا پھر وہ بہت جلد اُٹھ کھڑی ہوئی۔  اس کی تقلید میں خالہ اور دیگرخواتین بھی جلد آنے کا کہہ کر اجازت لے کر باہر آگئیں۔ راستے میں خالہ سائرہ کی اس بددلی کی وجہ پوچھنا ہی چاہتی تھیں کہ سائرہ کی بات نے انہیں چونکا دیا جو نعیم کی والدہ کے پوچھنے  پر جواب میں بڑی سختی سے کہہ رہی تھی ’’دیکھئے آنٹی آپ ان لوگوں سے ہماری طرف سے معذرت کر لیجئے گا ۔ہمار ا اظہر (اجو) کافی چھوٹا ہے اور انعم کی عمر بہت زیادہ ہے ‘‘۔
وہ بے حد ہموا لہجے میں معذرت کر رہی تھی اور خالہ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سائرہ کی آنکھیں کسی پراسرار طاقت کے زیرِ اثر تبدیل ہوتی جا رہی ہو ں لال !! بے حد لال  بلکہ لہو رنگ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: