Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قصہ ایک غریب وزیراعلیٰ کا

مانک سرکار بطور اپنی تنخواہ سے صرف جیب خرچ اپنے پاس رکھتے تھے اور باقی رقم پارٹی کو عطیہ کردیتے تھے
معصوم مرادآبادی
    ہندوستانی سیاست میں دولت مندوں کی کوئی کمی نہیں ۔ مقامی سیاست سے لے کر مرکزی سیاست تک سرگرم لوگوں کے پاس نہ صرف یہ کہ دولت کے انبار ہیں بلکہ ان کے پاس انگنت جائیدادیں بھی ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کی دولت وثروت کا اصل اندازہ اُس وقت ہوتا ہے، جب وہ چناؤ لڑنے کے لئے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرتے ہیں۔ اس پرچے کے ساتھ ایک حلف نامہ بھی داخل کرنا ہوتا ہے جس میں اپنی اور اپنی اہلیہ کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے ساتھ ساتھ بینک میں جمع رقم اور زیورا ت کا حساب دینا پڑتا ہے۔ اس کی تفصیلات جب اخباروں میں شائع ہوتی ہیں تو لوگ یہ سوچ کر پریشان ہواٹھتے ہیں کہ آخر غریب اور پریشان حال عوام کے ان لیڈروں کے پاس بے تحاشہ دولت اور جائیداد کہاں سے آئی۔ دولت وثروت سے مالامال ان سیاست دانوں کی بھیڑ میں ہمارے درمیان ایک ایسا سیاستداں بھی موجود ہے جو مسلسل 20برسوں تک وزیراعلیٰ رہنے کے باوجود اپنا ایک مکان تک نہیں بناپایا۔ پچھلے دنوں جب وہ اقتدارسے محروم ہوا تو لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس سیاست داں کا بینک بیلنس 10ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ جی ہاں ہم تریپورہ کے سابق وزیراعلیٰ مانک سرکار کی بات کررہے ہیں جن کی پارٹی سی پی ایم 20برس مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد تریپورہ میں چناؤ ہار گئی اور وہاں بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک انتہائی ایماندار اور شفاف کردار کے مالک وزیراعلیٰ کو اقتدارسے محروم کرکے تریپورہ کے باشندوں نے کون سا کارنامہ انجام دیا ہے۔
    مانک سرکار ملک کے سب سے غریب وزیراعلیٰ کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ بطور وزیراعلیٰ وہ اپنی تنخواہ سے صرف جیب خرچ کی رقم ہی اپنے پاس رکھتے تھے اور باقی رقم پارٹی کو عطیہ کردیتے تھے۔ اب اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہاں جاکر رہیں کیونکہ چناؤ ہارنے کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ کا بنگلہ خالی کردیا ہے اور شہر میں ان کے پاس کوئی مکان نہیں ۔ ان کی اہلیہ بھی مرکزی حکومت کی ملازمت سے سبکدوش ہوچکی ہیں۔ ان حالات میں مانک سرکار نے تریپور کی راجدھانی اگرتلہ میں واقع پارٹی دفتر کے گیسٹ ہاؤس میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مانک سرکار کے ساتھ ان کی اہلیہ پانچالی بھٹاچاریہ بھی اسی گیسٹ ہاؤس کے ایک مختصر کمرے میں اپنے شوہر کے ساتھ رہیں گی کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں بھی سرکاری مکان خالی کرنا پڑا ہے۔ مانک سرکار کی اہلیہ پانچالی نے کہا تھا کہ وہ مارکس وادی لٹریچر اور کتابیں پارٹی دفتر کی لائبریری کو عطیہ کردیں گی۔ مانک سرکار ملک کے سب سے غریب وزیراعلیٰ کہہ کر پکارے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاتھا کہ اس پر انہیں کبھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ مانک سرکار کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے سے بھی کم ہے۔ انہوں نے اسمبلی چناؤ میں پرچہ نامزدگی داخل کرتے وقت اپنے حلف نامے میں بتایا تھا کہ ان کے پاس/- 1080روپے نقد رقم تھی۔ حلف نامے کے مطابق ان کے بینک کھاتے میں 9720/-روپے تھے۔ سی پی ایم دفتر کے سیکریٹری کے مطابق مانک سرکار نے زوردے کر کہاہے کہ وہ گیسٹ ہاؤس میں قیام کے دوران وہی کھانا کھائیں گے جو پارٹی دفتر کے باورچی خانے میں پکایاجائے گا۔ انہوں نے کتابیں ، کپڑے اور کچھ سی ڈی پارٹی دفتر بھیج دیئے ہیں۔ اگر نئی حکومت انہیں سرکاری مکان دیتی ہے تو وہ اس میں جاسکتے ہیں لیکن فی الحال وہ اگرتلہ میں پارٹی دفتر کے گیسٹ ہاؤس کے ایک مختصر کمرے میں منتقل ہوچکے ہیں۔
    ہم آپ کو یاددلادیں کہ ملک میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بیشتر سیاست داں غربت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ یا اسمبلی کے ممبر کے طورپر جو تنخواہ ملتی ہے ،وہ اس کا بیشتر حصہ پارٹی کے کاموں کیلئے عطیہ کردیتے ہیں اور خود ایک یا 2 کمروں کے فلیٹوں میں رہتے ہیںجبکہ دیگر پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ عالیشان سرکاری کوٹھیوں میں قیام کرتے ہیںاور لگژری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جبکہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ سرکاری بسوں میں سفر کرتے ہیں۔ میں نے اپنی طالبعلمی کے زمانے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سیکریٹری مرحوم مقیم الدین فاروقی کو ڈی ٹی سی کی بسوں میں سفر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ دیگر پارٹیوں میں اس قسم کے معدودے چند لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔ ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس میں جہاں ایک طرف ارب پتی لیڈروں کی بھرمار ہے، وہیں اس پارٹی میں اے کے انٹونی ایک ایسے لیڈر ہیں جو انتہائی غربت اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ کئی برس پہلے جب وہ کیرالہ کے وزیراعلیٰ تھے تو ایک صحافی ان کا انٹرویو لینے ان کے گھر گئے تھے۔ جب وہ انٹونی کے گھر پہنچے تو ایک خاتون وہاں جھاڑو لگارہی تھیں۔ صحافی مسٹر انٹونی کا انتظار کرنے کیلئے ایک سادہ سے کمرے میں بیٹھ گئے اور جب انٹونی تیار ہوکر وہاں آئے تو ان کے پیچھے پیچھے وہی خاتون پانی لے کر آئیں۔ مسٹر انٹونی نے صحافی سے ان کا تعارف اپنی اہلیہ کے طورپر کرایا تو وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ وزیراعلیٰ کی بیوی گھر کی صفائی کا کام بھی خود ہی کرتی ہیں۔ وزیر دفاع کے طورپر جب اے کے انٹونی کو سیاچین گلیشیر کی برف پوش پہاڑیوں پر جانا پڑا تو ان کے پاس گرم کوٹ نہیں تھا لہٰذا انہوں نے اپنے ایک دوست کا گرم کوٹ پہن کر سیاچین گلیشیر کا دورہ کیا ۔ سماجوادی لیڈر مدھو لمیے کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے تمام زندگی فریج کا پانی نہیں پیا بلکہ وہ کچی مٹی کے گھڑے میں رکھا ہوا پانی پیا کرتے تھے۔ وہ گیس کے چولہے کو بھی فضول خرچی تصور کرتے تھے اور ہمیشہ مٹی کے تیل سے چلنے والے اسٹووپر کھانا بناتے تھے۔ ان کے گھر پر معمولی لکڑی کی بنی ہوئی سادہ سی کرسیاں تھیں جن پر وہ مہمانوں کو بٹھاتے تھے۔ وہ ہر قسم کی آسائش اور آرام دہ چیزوں کو فضول خرچی میں شمار کرتے تھے۔نئی دہلی کے وی پی ہاؤس میں واقع ان کے کمرے میں کوئی آرام دہ چیز موجود نہیں تھی۔ یہ جان کر تعجب ہوتا ہے کہ رشوت خوری ، لوٹ کھسوٹ اور دولت واقتدار کی ہوس کے اس دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے خود کو عوام الناس کی خدمت کے لئے وقف کررکھا ہے اور ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ۔
مزید پڑھیں:- - -  -مثبت اشارے ملنا شروع ہوگئے،امریکہ و ہند سے بہتر تعلقات کی توقع
 

 

شیئر: