Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشرہ کی تعمیر میں خواتین کا اہم کردار

عورت چاہے ماں، بہن ،بیوی اور بیٹی ہو، ہر روپ میں قدرت کا قیمتی تحفہ ہے، جسکے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے
محمد فیصل ـ۔جامعہ کراچی
اسلام سے پہلے دنیا نے جتنی بھی ترقی کی ہے اس میں صرف مرد کا حصہ ہے عورت کا کہیں بھی کوئی کردار نہیں لیکن اسلام آیا تو اس نے دونوں صنفوں کی کوششوں کو وسائل ترقی میں شامل کر لیا۔اسلام نے جو عزت اور مقام عورت کو عطا کیا ہے اُس کی مثال نہ تو قومی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی دنیا کی مذہبی تاریخ میں۔اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی نہیں مقرر کئے بلکہ ان کو مردوں کے برابر درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے۔
  حقیقت یہ ہے کہ عورت چاہے ماں،بہن،بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا قیمتی تحفہ ہے جس کے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے ۔عورت اپنی ذات میں ایک تناوردرخت کی ما نند ہے جو ہر قسم کے سردوگرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے ۔ا سی عزم وہمت ،حوصلہ اور استقامت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھا دیا۔عورت ہی وہ ذات ہے جس کے وجود سے کم و بیش ایک لا کھ 24 ہزار انبیائے کرام علیھم السلام نے جنم لیا اور انسانیت کے لئے رشد وہدایت کا پیغام لے کر آئے ۔ حضرت حوا علیہا السلام سے اسلام کے ظہور تک کئی نامور خواتین کا ذکر قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی میں موجود ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ازواج حضرت سارہ ؑ ،حضرت ہاجرہؑ ،فرعون کی بیوی آسیہ ،حضرت ام موسیٰ  ،حضرت مریم،ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ،ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ،ام المومنین حضرت ام سلمہؓ ،سیدہ ٔکائنات حضرت فاطمہؓ ،حضرت سمیہؓ،اور دیگر کئی خواتین ہیں جن کے کارناموں سے تاریخ کے اور اق بھرے پڑے ہیں۔
تاریخ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے۔اسلام کی دعوت وتبلیغ میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردا ر رہا وہ آج ساری دنیا کی خواتین کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے۔اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے کی سعادت حاصل کرنیوالی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راز دار ،ہمسفر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہے ۔حضرت خدیجہ ؓنے نہ صرف سب سے پہلے  اسلام قبول کیا بلکہ سب سے پہلے عمل کیا اور اپنی پوری زندگی جان و مال سب کچھ دین اسلام کے لئے وقف کر دیا۔حضرت خدیجہؓ نے3سال شعب ابی طالب میں محصوررہ کر تکالیف اور مصائب برداشت  کئے اور جب 3 سال کے بعد مقاطعہ ختم ہوا تو آپؓ اس قدر بیمار اور کمزور ہو گئیں کہ اسی بیماری کے عالم میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے صحابیات تو درکنار صحابہ کرام نے بھی علم حدیث حاصل کیا۔ وہ خوش نصیب حضرت عائشہؓ ہیں۔ حضرت عائشہؓ  کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں منفرد مقام حاصل ہے۔ آپؓ  اپنے ہم عصرصحابہ کرام اور صحابیاتِ عظام ؓمیں سب سے زیادہ ذہین تھیں ۔اسی ذہانت و فطانت اورو سعتِ علمی کی بنیادپر منفرد مقام رکھتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرا آدھا دین عائشہؓ کی وجہ سے محفوظ ہو گا۔8 ہزار صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔
خاتون جنت،سردارانِ جنت کی ماں اور دونوں عالم کے سردار کی بیٹی حضرت فاطمہؓ  کی زندگی بھی بے مثال ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ  ؓ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ تھیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی خواتین کیلئے نمونۂ حیا ت ہیں جنہوں نے اپنے عظیم باپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن میں سرداران قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرأت مندی،شجاعت،ہمت اور متانت سے سامنا کیا۔ حضرت فاطمہؓ  چھوٹی تھیں۔ ایک دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحن کعبہ میں عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ ابوجہل کے اشارہ پر عقبہ بن ابی معیط نے مذبوحہ اونٹ کی اوجھڑی کو سجدہ کے دوران آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن پر رکھ دیا،حضرت فاطمہؓ  دوڑتی ہوئی  پہنچیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذیت وتکلیف کو دور کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔آپ دوران جنگ بے خوف وخطر ہوکر زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔انہوں نے غزوہ خندق کے موقع پر نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب دوران جنگ ایک یہودی مسلمان خواتین پر حملہ آور ہوا تو آپؓ نے اس  پرزوردار وار کیا جس سے اس کا کام تمام ہو گیا۔
حضرت ام عمارہؓ  مشہور صحابیہ تھیں۔انہوں نے غزوہ احد میں جبکہ کفار مکہ نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں ایسی انتہائی نازک حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا دفاع کیا اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت حاجرہ ؑ  کا تذکرہ کرنا نہایت ہی اہم ہوگا ۔حضرت ابراہیم ؑ نے جب مکہ کی بے آب وگیاہ بنجر زمین میں حضرت حاجرہ کو چھوڑ دیا تو حضرت ہاجرہ ہی ہیں  جو اللہ تعالیٰ اور اپنے خاوند کے حکم کی تعمیل میں حضرت اسماعیل ؑ کے لئے پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کی تقلید قیامت تک کیلئے تمام مردوں اور عورتوں پر لازم کر دی۔ان پاکیزہ خواتین کے تذکرے  کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کی خواتین اِن محترم ہستیوں کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔
خصو صاً ان خواتین سے گزارش ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئی ہیں یا جن کی ذمہ داریوں کا بوجھ کم ہو گیا ہے اُن پر لازم ہے کہ دین کی اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لئے وقت نکالیں ،اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کر کے گھرو ں کے اندر اجتماع کریں تا کہ ان بہنوں کو جو تعلیم ِ اسلامی سے ناواقف ہیں ان کو دین کی بنیادی ضروری تعلیم حاصل ہو جائے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: