Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسے ماحول میں معیاری تعلیم کیونکر ممکن ہو

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
تعلیم کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ زندہ رہنے کیلئے حصول علم انتہائی ضروری ہے۔ عصر حاضر میں وہی ترقی کرتا ہے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتاہے۔ جہاں تعلیم عام ہو ، چھوٹے سے بڑے تک سب کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر کے مواقع میسر ہوں انہیں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وطن عزیز میں ایسا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام قدرتی وسائل اور ذہین ترین قوم ہونے کے باوجود ہمارا شمار اب تک ترقی پذیر قوموں میں ہوتا ہے۔ تعلیم ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے اور حق بھی ہے کیونکہ تعلیم ہی انسان کوانسان بناتی ہے ورنہ بغیر تعلیم جانور کی سی زندگی گزارنا انسانی شیوا نہیں۔
سچ یہ ہے کہ تعلیم ہی خوشحالی کی ضامن بھی ہے کیونکہ وہ شعور پیدا کرتی ہے ، پستی سے اٹھاکر بلندیوں تک پہنچا تی ہے۔ تعلیم ہی کی بدولت مقابلے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اسکول جانے سے بچے تعلیم یافتہ بن سکتے ہیں؟ یہ بات عقل کے منافی ہے۔ جب تک پورا نظام تعلیم اور نصاب درست نہیں کیا جاتا، تعلیمی میدان میں کسی انقلاب کی توقع عبث ہوگی ۔ اکا دُکا یعنی انفرادی طور پر ہمارے ملک کے ہونہار بچے دنیا میں نام پیرا کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں جن کے بارے میں خبریں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں لیکن مجموعی طور پر تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے موازانہ کیا جائے تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ خاص طور پر سرکاری اسکولو ں کی حالت انتہائی ابتر ہے وہاں مسائل کے انبار دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں عمارتیں خستہ ہیں تو کہیں اسکول کی عمارتوں پر بااثر افراد نے قبضہ کررکھا ہے ۔جہاں وہ اپنے جانور باندھتے ہیں یعنی اسکول کی عمارت اصطبل بن کر رہ جاتی ہے۔ خوش قسمتی سے اگر عمارت بھی بہتر ہو اور وہاں طالب علم بھی موجود ہوں تو اساتذہ یا تو سرے سے غائب ہوتے ہیں یا پھر اتنی مختصر تعداد ہوتی ہے کہ وہ تدرسی عمل کیلئے ناکافی رہتی ہے۔
جب ملک کا تعلیمی نظام درست ہوگا تو ہر شے خود کار انداز میں درست ہوتی چلی جائے گی۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ بغیر چھت کے اسکول ہوں،جہاں ایک استاد درخت کے نیچے چند بچوں کو لے کر زیور تعلیم سے آراستہ کردے بلکہ عصر حاضر میں جدید ترین سہولتیں درکار ہیں۔ نظام تعلیم سے ان کمزوریوں اور خامیوں کو نکال پھینکنے کی ضرورت ہے جو اس نظام کو دیمک کی طرح کھوکھلا کررہی ہیں۔ قومی بجٹ میں جب تک تعلیم کیلئے ایک بڑا حصہ مختص نہیں کیا جائے گا اس وقت تک جدید دور کے تقاضوں کے مطابق طلبہ کو تعلیم نہیں دی جاسکے گی۔ بچے قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں لہٰذا اس سرمائے کو پروان چڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ تعلیم کے حصول میں غریب، امیر سب کوایک ہی پلیٹ فارم پر ہونا چاہئے ، اس حوالے سے کوئی امتیاز نہیں برتا جانا چاہئے ۔ 
یوں تو تعلیم کے سلسلے میں سیمینار اور ورکشاپ کا بڑی باقاعدگی سے انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اپنے بچوں پر اس سلسلے میں خاص توجہ دی جائے ۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا ساتھ دیں اور سب سے اہم بات یہ کہ والدین بچوں کو اس طرح تعلیم کی طرف راغب کریں کہ وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب زندگی گزار سکیں بلکہ ملک و قوم کیلئے کارآمد شہری بھی بن سکیں۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اعلیٰ ترین مقام حاصل کرے۔ اس کیلئے وہ رات دن محنت و مشقت کرتے ہیں تو کبھی اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں تاکہ ان کا مستقبل روشن ہوسکے۔ 
تعلیم کے سلسلے میں اساتذہ کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے ۔ اساتذہ ایسے ہونے چاہئیںجو اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے ساتھ عمدہ اخلاق کے بھی حامل ہوں ۔ تدریس کے ماہر ہوں۔ بچے کی نفسیات کو سمجھ سکتے ہوں۔ بچے کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی امور کے بارے میں بھی گاہے بگاہے روشناس کراتے رہیں تاکہ دنیاوی کامیابی کے ساتھ وہ آخرت میں سرخروئی کیلئے بھی جدوجہد کرنے کے قابل ہو سکیں۔
تعلیم جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے ،انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیاگیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے ،وہ بہتر سے بہتر فیصلہ کرسکتا ہے اور بہتر انداز میں اس پر عمل کرابھی سکتا ہے لیکن اس سارے عمل کیلئے اسکا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ پیسے کی طلب نے تدریسی عمل کو آلودہ کردیا ہے۔ اساتذہ کی اکثریت نے اسے کاروبار سمجھ لیا ہے جس سے امیر طبقے پر تو کوئی خاص اثر نہیں پڑا لیکن غریب کی پہنچ تعلیم سے دور ہوتی جارہی ہے۔ غریب اب صرف تعلیم کے خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔اچھے اسکولوں، کالجوں یا یونیورسٹی میں داخلہ اب اس کے بس کی بات نہیں رہی ۔ 
بدقسمتی سے کچھ ایسے عناصر بھی تعلیمی نظا م کا حصہ بن چکے ہیں جو تعلیم کے دشمن ہیں ، اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے نظام میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اس طرز عمل سے غریب بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ یہ لوگ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جس کی وجہ سے شرح خواندگی میں واضح فرق پیدا ہو رہا ہے ۔ 
سائنسی دور ہونے کے باجوددرس و تدریس کی سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیں، خواندگی میں اضافے کے تقاضے پورے نہیں کئے جارہے ۔ہر ایک اپنی بولی بولتا نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام تعلیم کو درست انداز میں جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور اسے دور حاضر کے مطابق ڈھالا جائے۔ نئی نسل کو یہ باور کرانا چاہئے کہ حصول علم کا مقصد صرف اچھی ملازمت یا پیسہ کمانا نہیں بلکہ ایسا انسان بننا ہے جسے تہذیب، روایات اور معاشرتی اقدار کا پاس ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں معیاری تعلیم و تربیت ممکن بھلا کیسے ہو؟
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ غریب بچے کھلے آسمان تلے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ تصویر دیکھ کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا کہ تعلیم کی اہمیت کیا رہ گئی ہے۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ناکام ہوکر رہ گیا ہے۔ عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ جن قوموں کو تعلیمی مواقع سے دور رکھاجاتاہے وہ اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں۔ غریب بچوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے اس کی وجہ بچوں اور نوجوانوں کا تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا ہے۔ مغرب کی ترقی کا راز ہی تعلیم کو اہمیت دینا اور تعلیم کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔ کاش ہمارے یہاں بھی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے تاکہ ہر بچہ پڑھا لکھا اور ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوسکے۔ 
 

شیئر: