Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شعبان ، غیر حرمت کے مہینوں میں سب سے محترم

کثرت روایت کی بنا پر ضعیف احادیث پر عمل کی گنجائش رکھناشیطان کو بدعت اور خرافات کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے
 **  * *ام معتصم باللہ ۔ جدہ* * *
کوئی شبہ نہیں کہ ماہ شعبان غیر حرمت کے مہینوں میں اہم مقام رکھتا ہے جس میں آ پ سے نصف شعبان تک روزہ رکھنے کی صحیح روایت ملتی ہے لیکن کسی بھی صحیح حدیث سے روزہ کے علاوہ کوئی اور عمل واردنہیں اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے نصف شعبان (15ویں شب) کی فضیلت ثابت ہے۔  
    بعض مفسرین نے سورہ دخان کی آیت’’انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ‘‘  سے غلط استدال کیا ہے کہ قرآن کا نزول شب برا ٔت میں ہوا ہے جبکہ قرآن خود فرما رہا ہے کہ ’’ شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ‘‘ (البقرۃ/185)  اور سورۃ لیلۃ القدر رمضان کے ایام کی وضاحت کرکے لیلۃ القدر کی تخصیص بھی کررہا ہے۔بعض طبقات میں شب برأت کوایک منفرد اہتمام حاصل ہے جہاں بدعت کا ہجوم ہوتا ہے ،وہاں سنت کا نجوم ماند پڑجاتا ہے۔   
    سورہ دخان کی اس آیت کے تحت مفتی محمد شفیع نے لکھا جسکا خلاصہ یہ ہے :
     ’’ لیلۃ مبارکۃ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک شب قدر ہے۔ رسول اللہ سے بھی یہ منقول ہے کہ اللہ تعالی نے جتنی کتابیں ابتدائے دنیا سے آخر تک اپنے انبیاء علیہم السلام پر نازل فرمائیں، وہ سب کی سب ماہ رمضان المبارک ہی کی مختلف تاریخوں میں نازل ہوئی ہیں۔  بعض مفسرین نے لیلۃ مبارکۃ سے شب برأت مرادلی ہے مگر اس رات میں نزول قرآن دوسری تمام نصوص قرآن اور روایات حدیث کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بیان فرمایا کہ یہ رات جس میں نزول قرآن ہوا یعنی شب قدر اس میں مخلوقات کے متعلق تمام اہم امور جن کے فیصلے اس سال میں اگلی شب قدر تک واقع ہونے والے ہیں طے کئے جاتے ہیں کہ کون کون اس سال میں پیدا ہونگے، کون کون آدمی اس میں مرینگے، کس کو کسقدر رزق اس سال میں دیا جائیگا۔ چونکہ بعض روایات حدیث میں شب برأت یعنی شعبان کی 15ویں شب کے متعلق بھی آیاہے کہ اس میں آجال وازراق کے فیصلے لکھے جاتے ہیں اس لئے بعض حضرات نے آیت مذکورۃ میں لیلۃ مبارکۃ کی تفسیر لیلۃ البرا ٔت سے کردی ہے مگر یہ صحیح نہیں ۔ روح المعانی میں ایک بلا سند روایت حضرت ابن عباسؓ سے اس مضمون کی منقول ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ اصل بات جو ظاہر قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ سورۃ دخان کی آیت میں لیلۃ مبارکۃ اور فیہا یفرق وغیرہ کے سب الفاظ شب قدر ہی کے متعلق ہیں‘‘۔
     مولانا مودودی ؒ بھی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ سورہ قدر سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے شاہی نظم ونسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کرکے اپنے فرشتوں کے حوالے کردیتا ہے۔ بعض مفسرین جن میں حضرت عکرمۃ سب سے زیادہ نمایاں ہیں کو یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے کیونکہ بعض احادیث میں اس رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کئے جاتے ہیں، لیکن ابن عباس، ابن عمر، مجاہد، قتادہ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابن زید، ابومالک ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے  جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے اس لئے کہ قرآن مجید خود اسکی تصریح کررہاہے اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسری رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
      ابن کثیر ؒ کے مطابق عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری ؒ نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربیؒ فرماتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ، نہ اسکی صحت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں لہذا اسکی طرف التفات نہیں کرنا چاہئے۔(احکام القرآن)۔
    بعض حضرات نے کثرت روایت کی بنا ء پر ضعیف احادیث پر جو فضائل اعمال میں ہو ں، عمل کی گنجائش رکھی ہے لیکن گنجائش دینا  شیطان کو بدعت اور خرافات کا موقع فراہم کرنے کے مترادف  ہے جسکی جیتی جاگتی تصویر آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:- - - -نیک اعمال کی قبولیت کی شرط ، رزق حلال

شیئر: