Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آصفہ کو چاہئے انصاف

ہر وہ شخص جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے، آصفہ کی کہانی سن کر سکتہ میں آجاتا ہے کہ انسانی آبادیوں میں ایسے وحشی درندے بھی بسیرا کرتے ہیں جن میں ایک بھی صفت انسانوں جیسی نہیں
 
* * * *
معصوم مراد آبادی
    آصفہ کیلئے انصاف طلب کرنیوالوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔انصاف کی جو لڑائی چند روز پہلے وادی کشمیر تک محدود تھی، وہ اب ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کرکے لندن اور نیویارک کی سڑکوں تک جا پہنچی ہے۔دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال گزشتہ ایک ہفتے سے بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہیں۔ان کا مطالبہ ہے کہ آبروریزی کے مجرموں کو 6 مہینے کے اندر مقدمہ چلا کر پھانسی پر لٹکایا جائے ۔امریکی شہر نیویارک میں خواتین نے آصفہ کیلئے جسٹس ریلی کا اہتمام کیا تو لندن کی سڑکوں پر وزیر اعظم مودی کے دورہ ٔبرطانیہ کے خلاف احتجاجی نعرے بلند کئے گئے ۔مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ آصفہ کے قاتلوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ مستقبل میں پھر کوئی ایسی گھناؤنی اور انسانیت سوز حرکت نہ کرسکے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آصفہ پوری دنیا میں مظلومیت اور بے چارگی کی ایک علامت بن گئی ہے۔جو کوئی اس کی درد ناک داستان سنتا ہے،وہ اپنے انسان ہونے پر پشیمان ہونے لگتا ہے۔ہر وہ شخص جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے، آصفہ کی کہانی سن کر سکتہ میں آجاتا ہے کہ انسانی آبادیوں میں ایسے وحشی درندے بھی بسیرا کرتے ہیں جن میں ایک بھی صفت انسانوں جیسی نہیں ۔آصفہ کے ساتھ جو ظلم وزیادتی،درندگی ، بربریت،وحشت اور سفاکی ہوئی ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔آخر انسانوں کے بھیس میں وہ کون وحشی درندے تھے جنہوںنے 8 سال کی ایک معصوم اور خوبصورت کلی کو پہلے اغوا کیا، پھر لگاتار کئی دن تک ایک مندر میں اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر بے دردی اور سفاکی کے ساتھ قتل کرکے اس کی لاش جنگل میں پھینک دی۔آصفہ کی مظلومیت اور بے کسی کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی ،جب پولیس نے تفتیش کرنے کے بعد مجرموں کو گرفتار کرنا چاہا تو اس معاملے کو فرقہ وارانہ رخ دے کر وہ حرکتیں کی گئیں کہ توبہ ہی بھلی ۔جموں کے کٹھوعہ علاقہ میں جہاں4 فیصد سے بھی کم مسلمان آباد ہیں،مسلمانوں کیخلاف زبردست محاذ آرائی شروع کردی گئی۔آصفہ کے مجرموں کو بچانے کیلئے ہندو ایکتا منچ کے پرچم تلے سب اکٹھا ہوگئے اور انہوں نے اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا ۔ان ظالموں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ایک کمسن بچی کے ساتھ آخری درجہ کی ظلم وزیادتی کرنے والے انسان نما بھیڑیوں کا دفاع کرنے سے ان کی انسانی شناخت کتنی مجروح ہوگی ۔نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی آصفہ کو مسلمان قرار دیکر مجرموں کا دفاع کرنے کھڑی ہوگئیں ۔ شاید انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ عورتیں ایک نابالغ لڑکی پر حد درجہ ظلم کرنے والوں کے حق میں انسانی زنجیر بن کر کھڑی ہوئی تھیں۔بڑی جدوجہد کے بعد جب پولیس ملزمان کیخلاف کئی روز بعد فرد جرم داخل کرنے عدالت پہنچی تو وہاں وکیلوں نے اس کا راستہ روک لیا ۔انسانیت کی لاج بچانے کیلئے جب ایک خاتون ہندو وکیل دپیکا نے آصفہ کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا تو انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔دھمکیاں دینے والوں میں جموں بار ایسوسی ایشن کے چیئرمین سلاتھیا بھی شامل تھے لیکن وکیل دپیکا نے ان دھمکیوں کے آگے جھکنے سے انکار کردیا ۔جموں بار ایسوسی ایشن کے وکیلوں کی وحشت کو دیکھ کر ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو بھی حرکت میں آنا پڑا اور چیف جسٹس آف انڈیا نے جموں بار ایسوسی ایشن کے صدر کو نوٹس جاری کیا ۔آصفہ کا مقدمہ لڑنے والی خاتو ن وکیل دپیکا نے خم ٹھونک کر کہا ہے کہ وہ دھمکیوں سے ڈرنے والی نہیں ۔’’اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میں ایک عورت ہونے کے ناطے ڈر جاؤں گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے‘‘ ۔جموں میں پھیلی ہوئی وحشت اور انسانیت سوزی کا ماحول ختم کرنے کیلئے خود صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو میدان میں آنا پڑا۔ انہوں نے آصفہ کے معاملے کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ ’’ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کی کسی بھی ریاست میں کسی بھی بیٹی یا بہن کے ساتھ کٹھوعہ جیسا واقعہ پیش نہ آئے ۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’دنیا کی سب سے خوبصورت چیز ایک معصوم بچے کی مسکراہٹ ہے ۔بچوں کا محفوظ ہونا سماج کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘
    آصفہ کے ساتھ ہونے والے آخری درجہ کے ظلم وزیادتی کا پس منظر جان کر اور بھی رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جموں کی ہندو اکثریت نے اپنے علاقے کٹھوعہ میں آباد 4 فیصد سے بھی کم مسلمان چرواہوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کیلئے یہ سازش رچی تھی۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان چرواہے ان کی آبادی میں زمیندار کہلائیں۔ 10 جنوری 2018ء کوآصفہ اپنے گھوڑوں کوچَرانے کیلئے جنگل لے گئی۔ شام ہوتے ہی گھوڑے واپس آگئے لیکن آصفہ واپس نہ آئی۔ پوری رات اس کا والد اورچند پڑوسی اسے جنگل میں ڈھونڈتے رہے، لیکن وہ نہ ملی۔12 جنوری کواس کا والد تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے گیا توتھانے دارنے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ’’وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی‘‘۔17 جنوری کواس بدقسمت لڑکی کی لاش جنگل میں ملی۔ اسکے ناخن کالے پڑچکے تھے، پورے جسم پرزخموں کے نشان تھے اورٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ جس وقت اس بچی کا جنازہ اٹھایا گیا تواسکے گھروالے اسے اپنی زمین پردفن کرنا چاہتے تھے جوان کی برادری نے قبرستان کیلئے خریدی تھی اوروہ اب تک اپنے 5مردے وہاں دفن کرچکے تھے لیکن ہندو ہجوم اکٹھا ہوگیا اورمسلمانوں کو7میل دورآصفہ کے جنازے کو اٹھا کرلے جانا پڑا اورپھراسے جنگل میں ایک جگہ سپردخاک کردیا گیا۔
     23 جنوری 2018ء کووزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے تفتیش کرائم برانچ کے سپرد کی اورپھرساری کہانی کھل کرسامنے آ گئی۔ ایک 60 سالہ ریٹائرڈ تحصیلدارسنجی رام نے بکروال برادری کو کٹھوعہ سے بھگانے کے لیے یہ سب منصوبہ بندی کی کیونکہ بکروال برادری نے جنگل سے شہر آکرکچھ زمینیں خرید لی تھیں جہاں وہ اپنے مردے دفن کرتے تھے۔ سنجی رام کی مدد چند پولیس افسران سریندرورما، آنند دتا، تلک راج اورکھجوریا نے کی جبکہ سنجی رام کا بیٹا وشال، اس کا دوست پرویش کمار اورچھوٹی عمرکا بھانجا بھی اس سارے قصے میں شریک تھے۔ بچی کوایک قریبی مندرلے جایا گیا جہاں اسے نشہ آورادویات دے کر4دن تک مسلسل اس کے ساتھ زیادتی کی گئی اورپھراسے تشدد کے بعد گلا گھونٹ کرقتل کردیا گیا۔
مزید پڑھیں:- - - - -بے گناہی کا کرب

 

شیئر: