Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تنہا لیکن اداس نہیں: سعودی نوجوان جو اکیلے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں

طلبا سے لے کر نوجوان پروفیشنلز تک اپنے فلیٹس میں منتقل ہو رہے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
چند دہائیوں تک سعودی عرب میں کسی نوجوان کا اکیلے رہنا اور وہ بھی اپنی مرضی سے بغاوت سمجھا جاتا تھا اور اسے ناپسندیگی کی نظر سے دیکھا جاتا لیکن آج ایک نئی نسل فخر اور خوداعتمادی سے کے ساتھ اکیلے رہنے کے طرزِ زندگی کو اپنا رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ریاض، جدہ اور الخبر جیسے بڑے شہروں میں 20 برس کی عمر کے سعودی نوجوان نوجوان ضرورت کے تحت نہیں بلکہ آزادی، سکون اور اپنی ترقی کی خواہش میں اپنے لیے الگ گھر بنا رہے ہیں۔
طلبا سے لے کر نوجوان پروفیشنل افراد تک اپنے فلیٹس میں منتقل ہو رہے ہیں، اپنے گھروں کو اپنے انداز سے سجا رہے ہیں اور اس تصور کو نئے سرے سے متعین کر رہے ہیں کہ زندگی کیسے بنائی جاتی ہے۔
27  برس کی سارہ الاحمدی دو سال قبل اپنے الگ اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئی تھیں۔ شروع میں خاموشی ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔
’میں دو سال سے اکیلی رہ رہی ہوں۔ شروع میں مجھے جیسے ڈپریشن ہونے لگا تھا۔ مجھے یہ لائف سٹائل پسند نہیں آیا تھا خاص طور پر ریاض میں، میں دوست نہیں بنا سکی اور یہ شہر بھی مجھے پسند نہیں تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں نے ایک نئی زندگی شروع کی۔ اب میں کسی اور طریقے سے رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔‘

آزادی، سکون اور اپنی ترقی کی خواہش میں الگ گھر بنا رہے ہیں۔(فوٹو: عرب نیوز)

سارہ الاحمدی کے لیے جو کبھی تنہائی لگتی تھی وہ اب طاقت کا ذریعہ بن گئی۔ ان کو خود سے فیصلہ کرنے میں خوشی محسوس ہونے لگی۔ وہ کیا کھائیں گی، گھر کو کیسے سجائیں گی، کسے اور کب بلائیں گی۔
’یہ ایک زبردست احساس ہے کہ میں مکمل طور پر خودمختار ہوں اور اپنے گھر کی ہر چیز کی خود ذمہ دار ہوں۔‘
26 برس کے محمد الدوسری نے کئی سال بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیلے رہنے کا فیصلہ کیا۔ 
’سکالرشپ پر بیرون ملک سے واپس آنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں دوبارہ اپنے خاندان کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ میں پہلے ہی اپنی تمام ذمہ داریاں خود سنبھالنے کا عادی ہو چکا تھا اور مجھے الگ رہنا پسند آ گیا تھا، میں ایسے ہی چاہتا تھا۔‘

نئے رہائشی منصوبے سٹوڈیو اپارٹمنٹس اور ایک بیڈ روم یونٹس فراہم کر رہے ہیں۔(فوٹو: عرب نیوز)

جدہ میں 19 برس کے وعد المزروق کو اکیلے رہنے کے خیال کے اظہار کے بعد مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ ’سب اس کے خلاف تھے۔ خاص طور پر میرے والد بہت فکرمند تھے کہ اتنی کم عمری میں اکیلی کیسے رہوں گی۔ لیکن میں ہمیشہ سے خودمختار اور متوازن طبعیت کی رہی ہوں تو میں نے سوچا اور اپنی یونیورسٹی کے قریب ایک سٹوڈیوں اپارٹمنٹ لیا اور وہاں شفٹ ہو گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی خوف خود والی بات نہیں ہے۔ میرے والدین قریب ہی ہیں۔ میں اب بھی ان سے ملتی ہوں لیکن اب میرے پاس وہ جگہ ہے جہاں میں توجہ مرکوز کر سکتی ہوں اور خود کو بہتر بنا سکتی ہوں۔ یہ بغاوت نہیں ہے۔۔۔ یہ میرا انتخاب ہے۔‘

سماجی تبدیلیوں نے اکیلے رہنے کے رجحان کو معمول بنا دیا ہے (فوٹو عرب نیوز)

سماجی تبدیلیوں نے اکیلے رہنے کے رجحان کو معمول بنا دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خواتین ملازمت کی دنیا میں قدم رکھ رہی ہیں، نوجوان سعودی بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نئے رہائشی منصوبے شہری علاقوں میں سٹوڈیو اپارٹمنٹس اور ایک بیڈ روم والے یونٹس فراہم کر رہے ہیں۔
ایئر بی این بی جیسے پلیٹ فارمز اور آن لائن پراپرٹی ایپلی کیشنز نے بغیر کسی خاندان کے فرد کی مدد کے گھر تلاش کرنے، کرایہ پر لینے اور فرنیچر کا انتظام کرنے کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

زیادہ سے زیادہ خواتین ملازمت کی دنیا میں قدم رکھ رہی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

سائیکولوجسٹ عبیر الشمری نے عرب نیوز کو بتایا کہ اکیلے رہنے کے رجحان میں اضافہ جذباتی پختگی اور سماجی ارتقا دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اکیلے رہنے کے لیے جذباتی تیاری بھی ضروری ہوتی ہے۔
’ابتدائی مرحلہ بے چینی یا تنہائی کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو خاندان کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ اور مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کے ذریعے بہت سے لوگ اطمینان اور خوداعتمادی محسوس کرتے ہیں۔‘

شیئر: