Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری اداروں کی نجکاری کو 3چیلنج لگام لگائے ہوئے ہیں، ماہرین اقتصاد

 ابھا ..... سعودی ماہر اقتصاد عماد الرمال نے واضح کیا ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری کیلئے تدریج اور انتخاب کا اصول موثر ثابت ہو گا۔ 100اداروں میں سے 30کی نجکاری سرمایہ کاروں کیلئے اچھا محرک بنے گی۔ الرمال نے توجہ دلائی کہ نجکاری سے متعلق دستاویز کا اجراءبجائے خود شفاف پالیسی کی روشن علامت ہے البتہ نجکاری پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی راہ میں 3بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سرکاری ادارے کے اثاثے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر فروخت ہوں گے یہ نکتہ عالمی او رمقامی دونوں لحاظ سے قابل گرفت ہے۔ عام طور پر سرکاری اداروں کے اثاثے وقت کی تنگی اور ناکام اداروں سے چھٹکارے کی سرکاری خواہش نیز نجی سرمایہ کاروں کی بے رغبتی او رسرکاری اداروں کے ڈھانچے میں تبدیلی نہ کرنے کی تاکید کے باعث مارکیٹ ریٹس سے کم پر ہی فروخت ہوتے ہیں۔ نجکاری دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ 2020میں 5سرکاری اداروں کے سودوں سے 35تا 40ارب ریال کی آمدنی ہو گی۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا یہ رقم مارکیٹ ویلیو پر منافع کے حساب سے ہو گی یا مقررہ رقم ایسی صورت میں خسارے کی علامت ہو گی جبکہ سرکاری اداروں کی حقیقی قیمت 40کے بجائے 60ارب ریال ہو۔ 2010میں پیٹرومین کے اثاثے حقیقی قیمت سے کم میں فروخت کئے گئے تھے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ عوام کیلئے سروس چارجز زیادہ دینے پڑتے ہیں جب پون چکی سے بجلی تیار ہوتی ہے تو 30سے 40ہللہ فی کلوواٹ وصول کئے جاتے ہیں۔ گیس سے تیار کی جانیوالی بجلی پر فی کلو واٹ 5ہللہ لئے جاتے ہیں۔ پون چکی ایسے علاقوں میں قائم کی جار ہی ہے جہاں صارفین کے سامنے کوئی اور متبادل نہیں۔ نجکاری کا ایک نقصان یہ بھی ہو گا۔ تیسرا چیلنج عوام میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا ہے۔ اس حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ نجکاری پر 10ہزار اسامیاں پیدا ہوں گی کاش کہ ایسا ہو تاہم ملکی اور عالمی تجربات کی تاریخ اس سے مختلف ہے۔ 
 

شیئر: